1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کا عالمی دن: لاہور میں حکام نے مارچ پر پابندی لگا دی

4 مارچ 2023

پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حکام نے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ پر پابندی لگا دی ہے۔ قدامت پسند اکثریتی آبادی والے پدر شاہی پاکستانی معاشرے میں ایسی ریلیوں پر کڑی تنقید بھی کی جاتی ہے۔

Pakistan Internationaler Frauentag in Pakistan
تصویر: Rahmat Gul/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن ہر سال آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے اور اس روز پاکستانی خواتین کی تنظیموں اور حقوق نسواں کے لیے فعال اداروں کی طرف سے ملک کے مختلف شہروں میں تقریبات اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان اکثریتی طور پر ایک قدامت پسند اسلامی معاشرہ ہے اور وہاں پدر شاہی سماجی رجحانات بھی عام ہیں، اس لیے ایسی ریلیوں پر تنقید اور ان کے شرکاء کی مخالفت بھی ایک عمومی رویہ ہے۔

مارچ کی آٹھ تاریخ اتنی بھاری کیوں؟

پاکستانی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی تنظیمیں ایسی ریلیوں کا خاص طور پر 2018ء سے ملک کے تقریباﹰ تمام بڑے شہروں میں اہتمام کرتی آئی ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی سماجی اور مذہبی سیاسی حلقے ایسی ریلیوں کی مخالفت میں ان اجتماعات کا اہتمام بھی کرتے ہیں، جنہیں 'حیا مارچ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ایسے مذہب پسند حلقے پاکستانی خواتین کے ایسے مارچوں کو اپنے طور پر اسلامی اقدار کے منافی بھی قرار دیتے ہیں۔

پاکستانی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی تنظیمیں ایسی ریلیوں کا خاص طور پر 2018ء سے ملک کے تقریباﹰ تمام بڑے شہروں میں اہتمام کرتی آئی ہیںتصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

سرکاری نوٹیفیکیشن

جمعہ تین مارچ کو رات گئے لاہور میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ کا اہتمام کرنے والے منتظمین کے لیے جاری کردہ ایک سرکاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ لاہور میں اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ کرنے اور ریلیاں نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

پاکستان اور لبرل فیمنزم

اس نوٹیفیکیشن کے بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں عورت مارچ کی منتظم شخصیات میں سے ایک حبا اکبر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس مارچ کی اجازت نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ آزادی رائے، اظہار رائے اور اجتماع کے حق کے حوالے سے انتظامات کی حکومتی اہلیت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔‘‘

گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں مذہبی سماجی اور سیاسی حلقے عورت مارچ کے مقابلے میں خواتین کے حیا مارچ کا اہتمام بھی کرتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

’متنازعہ پلے کارڈز اور بینرز‘

لاہور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق حکام نے سرکاری نوٹیفیکیشن میں ان 'متنازعہ پلے کارڈز اور بینزر‘ کا حوالہ بھی دیا ہے، جو عورت مارچ کے شرکاء اکثر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مارچ کی اجازت نہ دینے کے پیچھے سکیورٹی وجوہات بھی ہیں۔

ماضی میں عورت مارچ کہلانے والے اجتماعات میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم پاکستانی تنظیموں کی طرف سے ان کے پلے کارڈز اور بینرز پر جن موضوعات سے متعلق اظہار رائے کیا گیا، وہ زیادہ تر طلاق، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور حیض جیسے امور سے متعلق تھے، جن پر پدر شاپی پاکستانی معاشرے میں بالعموم کھل کر بات نہیں کی جاتی۔

پاکستانی مرد عورت مارچ سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

اہم بات یہ بھی ہے کہ حکام نے آئندہ ہفتے بدھ کے روز منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 'عورت مارچ‘ کی اجازت دینے سے تو انکار کر دیا ہے تاہم اس اجتماع کی مخالفت میں 'حیا مارچ‘ کے منتظمین کو ان کی ریلی کی اجازت دے دی گئی ہے۔

آئین میں خواتین کے حقوق کیا ہیں؟

ماضی میں کئی مرتبہ ایسا بھی دیکھنے میں آ چکا ہے کہ حکام کی طرف سے پابندی لگائے جانے کے بعد عورت مارچ کے منتظمین کو اپنی ریلیوں کے انعقاد کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے ہوئے ان کی قانونی اجازت لینا پڑی۔

م م / ع ب (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں