خواتین کو صنفِ نازک کے طور پر لینے کی ضرورت نہیں، جرمن عدالت
عابد حسین
13 مارچ 2018
جرمن عدالت نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ خواتین اکاؤنٹ ہولڈرز کے ساتھ صنفی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق بینک میں اکاؤنٹ رکھنے والے کو صنفی اعتبار سے ترجیح دینا بھی ضروری نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
اشتہار
جرمنی کی وفاقی عدالت انصاف نے اُس اسی برس کی خاتون کی اپیل خارج کر دی ہے، جس میں اُس نے بینک کے خلاف کیس کیا تھا کہ اُس کے ساتھ ایک خاتون کے مطابق سلوک نہیں کیا گیا۔ بینک نے اس اسی سالہ خاتون کو محض اکاؤنٹ ہولڈر کے طور پر لیا اور اُس کی جنس کی وضاحت نہیں کی تھی۔
اس مقدمے کی مدعیہ مارلیز کریمر نے عدالتی فیصلے کے ساتھ عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف جرمنی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت میں اپیل دائر کرے گی اور اگر وہاں سے بھی اُس کی داد رسی نہ ہوئی تو وہ یورپی یونین کی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ بزرگ خاتون کریمر جرمنی کے جنوب مغربی شہر زاربرُوکن کی رہائشی ہے اور اُس کا اکاؤنٹ اشپارکاسے بینک میں ہے۔ یہ بینک جرمنی کے بڑے اور اہم بینکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
مقامی بینک کے خلاف بنیادی عدالت میں شکایت درج کراتے ہوئے خاتون کا موقف تھا کہ یہ اُس کا دستوری حق ہے کہ اُسے لکھنے اور بولنے میں ایک خاتون کے طور پر لیا جائے۔ زاربرُوکن کی مقامی بنیادی اور انتظامی عدالت نے یہ شکایت فروری سن 2016 میں خارج کر دی تھی۔ بنیادی عدالت کے فیصلے کو ضلعی عدالت نے بھی مارچ سن 2017 میں برقرار رکھا۔
اس مقدمے کی مدعیہ مارلیز کریمر نے عدالتی فیصلے کے ساتھ عدم اتفاق کیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Dietze
مارلیز کریمر نے اس مقدمے کے خارج ہونے کے خلاف وفاقی ریاست زارلینڈ کی اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی تھی اور اس اعلیٰ عدالت کے تینوں ججوں نے متفقہ طور پر ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل مسترد کر دی۔
وفاقی عدالت انصاف (BGH) کے تین رکنی بینچ میں دو خواتین ججز بھی شامل تھیں۔ منگل تیرہ مارچ تین رکنی بینچ نے فیصلے میں واضح کیا کہ ریاست کے صنفی مساوات کے قوانین کسی خاتون کو یہ حق تفویض نہیں کرتے کہ اُسے ایک خاتون ہی کے طور پر لیا جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بینک کے معیاری فارم درست ہیں اور اُس پر مرد یا عورت کا ظاہر کیا جانا ضروری نہیں ہے۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔