خواتین کی توہین نفرت انگیزی اور قابل سزا جرم ہے، جرمن عدالت
16 جون 2020
ایک جرمن عدالت نے اپنی رولنگ میں کہا ہے کہ خواتین سے متعلق نازیبا اور نادست جملے بازی نفرت انگیزی سے متعلق جرمنی کے تعزیراتی قوانین کے دائرہء عمل میں آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
اشتہار
کولون کی اعلیٰ علاقائی عدالت کے ججوں نے کہا ہے کہ ملک میں نفرت انگیزی سے متعلق قوانین خواتین کو بھی نفرت سے بچاتے ہیں، کیوں کہ ان کا بنیادی مقصد انسانی تکریم کا تحفظ ہے۔ اس سے قبل بون شہر کی ایک ماتحت عدالت نے خواتین کو 'دوسری درجے کی انسان‘ کہنے پر نفرت انگیزی کے قانون کے تحت چلائے جانے والے مقدمے میں ایک شہر کو بری کر دیا تھا۔ اعلیٰ علاقائی عدالت کی جانب سے اس تازہ رولنگ کے بعد یہ مقدمہ ایک مرتبہ پھر بون شہر کی عدالت کے سپرد کر دیا گیا ہے، تاہم اب اس مقدمے پر سنوائی دوسرے چیمبرز کریں گے۔
استغاثہ نے اس سلسلے میں عدالتی رولنگ مانگی تھی۔ عدالت نے یہ رولنگ گزشتہ ہفتے دی تھی، تاہم اسے پیر کے روز شائع کیا گیا۔ اس طرح اب اس شخص پر نفرت انگیزی کے قوانین کے تحت دوبارہ مقدمہ چلایا جائے گا، جس نے ایک ویب سائٹ پر خواتین کے لیے 'دوسرے درجے کے افراد‘، 'لگ بھگ جانور‘ اور 'کم تر انسان‘ جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔
اس شخص پر ابتدا میں جرمانہ عائد کیا تھا تھا تاہم بون شہر کی ایک اپیلوں سے متعلق عدالت نے اس شخص کو بری کر دیا تھا۔ عدالت نے تعزیراتِ جرمنی کے نفرت انگیزی سے متعلق قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون اقلیتوں کا تحفظ کرتا ہے، مگر خواتین کا نہیں۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد کولون کی اعلیٰ علاقائی عدالت سے رجوع کیاگیا تھا تاکہ تعزیراتِ جرمنی کے نفرت انگیزی سے متعلق قانون سے متعلق اعلیٰ عدالت کی رائے جانی جائے کہ آیا یہ قانون واقعی خواتین کا تحفظ نہیں کرتا۔
خواتین کا عالمی دن: پاکستان میں اس مرتبہ پوسٹرز کیسے تھے؟
اس مرتبہ عورت مارچ کی مشروط اجازت دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی مظاہرے کیے۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے مظاہروں کی تصاویر۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی ریلی میں بھی ہزاروں افراد کی شرکت
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ میں اس مرتبہ کراچی میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کے حقوق سے متعلق نعرے درج تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا، جس پر درج تھا: ’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
’میرا جسم میری مرضی‘
اس نعرے کی تشریح اس مرتبہ بھی مختلف انداز میں کی گئی۔ کئی حلقوں نے اسے جسم فروشی کی ترویج قرار دیا، جب کہ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں‘
مظاہرے میں مرد بھی شریک ہوئے۔ ایک مرد نے ایک پوسٹر پر لکھ رکھا تھا، ’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں، سوچ میں‘ (ہے)۔
تصویر: DW/R. Saeed
’دونوں نے مل کر پکایا‘
ایک پوسٹر پر درج تھا ’چڑا لایا دال کا دانہ، چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر پکایا، مل کر کھایا‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
سیاست دان بھی شریک
عورت مارچ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
بزرگ خواتین نے بھی مارچ کیا
کراچی میں منعقد ہونے والے عورت مارچ میں معمر خواتین بھی شامل ہوئیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
’بے شرم کون؟‘
ایک خاتون نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’دیکھتے ہو اسے بے شرمی سے تم، پھر کہتے ہو اسے بے شرم تم‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاپتا بلوچ خواتین کے حق میں پوسٹرز
عورت مارچ کے دوران ایسی بلوچ خواتین اور مردوں کے حق میں بھی پوسٹرز دیکھے گئے جو ’جبری طور پر گمشدہ‘ ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاہور: ’بچوں پر جنسی تشدد بند کرو‘
صوبائی دارالحکومت لاہور میں اس برس بھی عورت مارچ میں خواتین نے بھرپور شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور میں مرد بھی شانہ بشانہ
لاہور میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بڑی تعداد نے بھی عورت مارچ میں شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مارچ زیادہ منظم
اس مرتبہ عورت مارچ کی مخالفت اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسے بہتر انداز میں منظم کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’ہمارے چینل ہماری مرضی‘
لاہور میں عورت مارچ کے دوران ایسے پوسٹر بھی دکھائی دیے جن پر پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر پر پابندی لگانے کے مطالبے درج تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں ماروی سرمد سے بدتمیزی کی تھی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’عورت اب آواز بھی ہے‘
پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر سے متعلق دیگر پوسٹرز پر بھی انہی کے متنازعہ جملوں کو لے کر طنز کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’اس دور میں جینا لازم ہے‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے اپنے چہرے پر آزادی تحریر کر رکھا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مذہبی جماعتوں کی ’حیا واک‘
اسلام آباد میں عورت مارچ کے مد مقابل کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی تنظیموں نے ’حیا واک‘ کا انعقاد کیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
’جسم کی حفاظت پردہ ہے‘
’حیا واک‘ میں جامعہ حفصہ کی طالبات بھی شریک ہوئیں، جنہوں نے عورت مارچ کے شرکاء ہی کی طرح مختلف پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
اسلام آباد کا عورت مارچ
پاکستانی دارالحکومت میں اس مرتبہ بھی عورت مارچ کے شرکاء نے دلچسپ پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
’عزت کے نام پر قتل نہ کرو‘
عورت مارچ میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھا، جس پر درج تھا: ’مجھے جینے کا حق چاہیے‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘
ایک نوجوان لڑکی نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’میں جنسی زیادتی کے متاثرین کے لیے مارچ کرتی ہوں‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
سکیورٹی کے باوجود پتھراؤ
اسلام آباد انتظامیہ نے دونوں ریلیوں کے شرکاء کو الگ رکھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پتھراؤ کے واقعات پیش آئے، جس کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا گیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
جماعت اسلامی کی تکریم نسواں واک
مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تکریم نسواں واک کا انعقاد کیا۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
’قوموں کی عزت ہم سے ہے‘
اسلام آباد میں تکریم نسواں واک میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ ایک پوسٹر پر درج تھا ’ہمارا دعویٰ ہے کہ خواتین کو حقوق صرف اسلام دیتا ہے‘۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
23 تصاویر1 | 23
اعلیٰ علاقائی عدالت نے اپنی رولنگ میں کہا کہ خواتین کے حوالے سے توہین آمیز رویہ انسانی تکریم کے بنیادی اصول کے خلاف ہے اور ایک قابل تعزیر جرم ہے۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو تین ماہ تا پانچ برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
بون شہر کی انتظامی عدالت نے ایک ویب سائٹ پر خواتین سے متعلق نازیبا جملوں پر متعلقہ شخص پر جرمانہ عائد کیا تھا، تاہم اس شہر کی اپیلوں کی سماعت کرنے والی عدالت نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں اسثغاثہ نے ملزم پر دوبارہ مقدمہ چلانے کے لیے اعلیٰ علاقائی عدالت سے رجوع کیا تھا۔