ڈی ڈبلیو کے ایک جائزے کے مطابق برازیل اور یوکرائن جیسے ممالک کی خواتین کے حوالے سے آن لائن سرچ کی جائے، تو نتائج جنسی نوعیت کی تصاویر کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
تصویر: Nora-Charlotte Tomm, Anna Wills
اشتہار
گوگل امیجز میں مشرقی یورپ اور لاطینی امریکا سرچ کیا جائے تو وہاں 'سیکسی‘ اور 'ڈیٹ کے لیے بے تاب‘ خواتین نظر آتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ایک جائزے سرچ انجنز کے جنسیت پر مبنی ان سرچ نتائج کی وجوہ جانیے۔
گوگل امیجز ہر چیز کا عوامی چہرہ ہیں۔ جب آپ دیکھنا چاہیں کہ کوئی چیز کیسی دکھائی دیتی ہے، تو یقیناﹰ آپ گوگل ہی سے رجوع کریں گے۔ ڈی ڈبلیو کے ڈیٹا پر مبنی ایک تفتیشی جائزے میں بیس ہزار سے زائد تصاویر اور ویب سائٹس کو جانچا گیا، جن سے گوگل کے الگوردمز میں موجود بائس یا تعصب کا پتا چلا۔
مثال کے طور پر اگر گوگل میں 'برازیلین ویمن‘، 'تھائی ویمن‘ یا 'یوکرائنی ویمن‘ سرچ کیا جائے تو نتائج 'امریکی ویمن‘ کے سرچ نتائج سے کہیں زیادہ جنسیت زدہ دکھائی دیں گے۔ گوگل کا اپنا امیج انالیسز سافٹ ویئر بھی یہی کہتا ہے۔
اگر آپ جرمن ویمن لکھتے ہیں، تو آپ کو زیادہ تر سیاستدانوں اور ایتھلیٹس کی تصاویر نتائج میں دکھائی دیں گے۔ ڈومینکن یا برازیلین ویمن کے حوالے سے سرچ کی جائے تو وہاں سیکسی پوز بنائے اور کم لباس پہنے لڑکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
سائنس میں خواتین کا بین الاقوامی دن
سائنس کے میدان میں پاکستانی خواتین کی کارکردگی غیر معمولی قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ خواتین کئی سائنسی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو
ڈاکٹر فوزیہ ادریس اس وقت پاکستان آرمڈ فورسز کے سائبر سیکیورٹی ونگ سے وابستہ ہیں اور افواجِ پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔
تصویر: Privat
حبا رحمانی
پاکستانی نژاد انجینئر حبا رحمانی ایک عشرے سے امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا سے وابستہ ہیں اور کینیڈی سپیس فلائٹ سینٹرمیں خلا میں بھیجے جانے والے وہیکلز اور اسپیس شپس کی لانچنگ کی تکنیکی نگرانی کی ذمہ داری ادا کر نے کے ساتھ مختلف راکٹ لانچنگ پروسیس کی ٹیلیمیٹری لیبارٹری میں نگرانی بھی کرتی ہیں ۔
تصویر: Privat
زرتاج احمد
زرتاج احمد کراچی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جو کئی برس سے پاکستان میں سائنسی علوم خاص طور پر خلائی سائنس کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان سپیس سائنس ایجوکیشن سینٹر قائم کیا ہے۔ جو ملک میں نوجوانوں کو خلائی سائنس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ انہیں کیریئر کاؤنسلنگ بھی فراہم کرتا ہے۔
تصویر: Privat
مبینہ ظفر
مبینہ ظفر کا تعلق لاہور سے ہے وہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ملٹی ڈسپلنری گروپ سربانا جیورنگ سے بحیثیت سینئر پروگرامر وابستہ ہیں۔ انہوں نے سن 2018 میں اسی گروپ کی جانب سے ینگ فی میل پروفیشنل آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا، جس سے وہ سن 2012 سے وابستہ ہیں۔ مبینہ کو یہ ایوارڈ پاکستان میں پانی کے ذرائع کے لیے منیجمنٹ اینڈ مانیٹرنگ انفارمیشن سسٹم بنانے پر دیا گیا۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین
ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون اسٹرنگ تھیورسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کنیرڈ کالج لاہور سے فزکس میں گریجویشن کرنے والی ڈاکٹر تسنیم نے اسٹوخوم یونیورسٹی اٹلی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹورل ہارورڈ یونیورسٹی سے محض 26 برس کی عمر میں کیا۔ وہ ’ورلڈ ایئر آف فزکس‘ کانفرنس جرمنی میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر نرگس ماول والا
پاکستانی نژاد ڈاکٹر نرگس ماول والا ایم آئی ٹی کے سکول آف فلکی طبیعات کی ڈین ہیں۔ وہ سن 2015 میں لیگو ٹیم کی ساتھ ثقلی موجوں کی دریافت میں اہم کردار ادا کرنے کے باعث بین الااقوامی شہرت رکھتی ہیں ۔ جس سے تقریبا سو سال پرانے آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی تصدیق ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ماول والا کی پیدائش لاہور اور ابتدائی تعلیم کراچی کی ہے ۔
تصویر: Privat
ہما ضیا فاران
ہما ضیا فاران کا شمار پاکستان کی ان چنیدہ خواتین میں ہوتا ہے جو اندرون ملک خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کے لیے برسوں سے کوشاں ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں اقوام متحدہ کے تحت شروع کیے جانے والے پروگرام "الف اعلان" نے ہما کی سرکردگی میں چلنے والی تنظیم پاکستان الائنس فار میتھ اینڈ سائنس کے ساتھ کئی تعلیمی منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے۔
تصویر: Privat
سعدیہ بشیر
سعدیہ بشیر پاکستانی کمپیوٹر سائنسدان اور گیم ڈیویلیپر ہیں۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے پکسل آرٹ اکیڈیمی قائم کی جہاں پاکستان میں پہلی دفعہ کمپیوٹر گیمز کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ سعدیہ کو پہلی پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جنھوں نے عالمی ڈیم ڈیویلیپر کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ 'وومن انٹر پری نیور 'اور 'وومن کین ڈو 'سمیت کئی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
تصویر: Privat
صادقہ خان
صادقہ خان بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون سائنس جرنلسٹ ہیں جو اپنے ادارے سائنسیا پاکستان کے بینر تلے پاکستان میں سائنسی صحافت کی ترویج میں مسلسل کوشاں ہیں۔ وہ نیشنل سائنس ایوارڈ، برلن سائنس ویک جرنلزم گرانٹ اور آگاہی جرنلزم ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔ انھیں' ایوری وومن ان ٹیکنالوجی ایوارڈ برطانیہ 'کے لئے بھی منتخب کیا گیا ہے۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر آصفہ اختر
جرمنی میں مقیم پاکستانی نژاد ڈاکٹر آصفہ اختر جرمنی کے مشہور تحقیی ادارے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر ہیں جنھیں حال ہی میں سن 2021 کے لائبنس انعام سے نوازا گیا ہے جسے جرمنی میں سائنسی تحقیق کا اعلیٰ ترین ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آصفہ مائیکرو بائیولوجی میں اپنی تحقیق کے باعث اس سے پہلے بھی بہت سے عالمی اعزازات حاصل کرچکی ہیں۔
تصویر: Privat
10 تصاویر1 | 10
یہ رجحان اتنا واضح ہے کہ کوئی عام شخص بھی اسے محسوس کر سکتا ہے یا فقط سادہ سرچ کرنے پر ہی سرچ انجنز کا یہ جانب دارانہ رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم ان تمام تصاویر کا باریکی سے جائزہ لینا ایک مشکل کام ہے۔
سوال یہ ہے کہ سرچ انجن ایسا کرتے کیوں ہیں؟ جنسی جذبات ابھارنے والی تصاویر کو سرچ انجن کا یوں سامنے لانا اصل میں کسی ثقافت کے حوالے سے سماجی جانبداری کا آئینہ دار ہے۔
ڈی ڈبلیو نے اس جائزے کے لیے گوگل ہی کا تیارہ کردہ کلاؤڈ ورژن 'سیف سرچ‘ سافٹ وئیر استعمال کیا۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے تصاویر کو ٹیگ کیا جاتا ہے۔
اس سافٹ وئیر کے نتائج کے مطابق ڈومینک ریپبلک یا برازیل کی خواتین کے حوالے سے سرچ میں چالیس فیصد مواد جنسی جذبات ابھارنے سے متعلق ملتا ہے، جبکہ یہ شرح امریکی خواتین کے حوالے سے سرچ پر چار فیصد اور جرمن خواتین کے حوالے سے پانچ فیصد ہے۔