1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کے مخصوص ایّام سے متعلق بات کرنا آج بھی معیوب

عنبرین فاطمہ، کراچی
17 اکتوبر 2016

خواتین کے ماہانہ مخصوص ایّام یا ’ ماہواری ‘ نسوانی صحت کے حوالے سے انتہائی اَہم موضوع ہے۔ تاہم اس پر بات کرتے ہوئے خواتین  آج بھی جھجکتی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان خواتین میں طبی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

Äthiopien Wokro Young girls on the mattress of their school ready for the menstruation period ( clean club members )
قدامت پسند معاشروں میں بچیوں کو ماہواری سے متعلق معلومات فراہم کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہےتصویر: DW/G. Tedla
قدامت پسند معاشروں میں بچیوں کو ماہواری سے متعلق معلومات فراہم کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہےتصویر: DW/G. Tedla

یوں تو بلوغت کے ساتھ کئی طبی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جن سے ہر خاتون کو گزرنا ہوتا ہے مگر ان میں سب سے اہم خواتین کی تولیدی صلاحیت کا فعال ہونا ہے۔ بلوغت کے مرحلے کو پہنچنے والی ہر لڑکی کو ماہواری کے قدرتی عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ مگر جنوبی ایشیا اور پاکستان جیسے قدامت پسند معاشروں میں ماہواری پر بات کرنا یا اس بارے میں بچیوں کو معلومات فراہم کرنا آج اکیسویں صدی میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

صحافت کے شعبے سے وابستہ ارم جواد بتاتی ہیں کہ وہ چھٹی کلاس میں تھیں جب وہ پہلی بار ماہواری کے عمل سے گزریں، ’’میں اپنی سہلیوں کی بہ نسبت بہت جلد ہی اس عمل سے گزری۔ اس کے بارے میں میں نے پہلے کسی سے کچھ نہیں سنا تھا۔  جب میں اس عمل سے گزری تو میں سمجھی کہ شاید مجھے کینسر یا کوئی خطرناک بیماری ہوگئی ہے۔ اسی خدشے کے تحت اپنی والدہ کو بتایا تو انہوں نے مجھے خاموش رہنے کو کہا اور تاکید کی کہ اس بارے میں کسی سے ذکر نہ کروں کیوں کہ مجھے شرم و حیا کو ملحُوظ رکھنا ہے۔ لیکن حیران کُن طور پر انہوں نے مجھے اس سلسلے میں کچھ سمجھانا یا بتانا مناسب نہ سمجھا۔‘‘

کچھ ایسے ہی تجربے سے ایک نجی کالج میں زیر تعلیم طالبہ سمیعہ طارق بھی گزریں، ’’میں اسکول میں تھی جب پہلی بار اس تجربے سے گزری۔ میں نے اس بارے میں سہلیوں سے تھوڑا بہت تو سن رکھا تھا لیکن زیادہ نہیں جانتی تھی۔ شرم کے مارے میں تین دن اسکول سے غیر حاضر رہی۔‘‘


یہ محض ان دو خواتین کے ہی تجربات نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں رہنے والی اکثر و بیشتر خواتین اسی طرح کے حالات و تجربات سے گزرتی ہیں اور زندگی کے ایک اہم ترین معاملے میں شرم و حیا کو عُذر بنا کر اُنہیں نہ تو اس بارے میں کوئی معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی اس کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔

گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شکیلہ انجم کا کہنا ہے کہ شرم و حیا بے شک ہمارے معاشرے کی اقدار کا اہم جز ہے تاہم اس اہم معاملے میں ایک دوسرے سے بات نہ کر کے بہت سی خواتین طبّی حوالے سے اپنا نقصان کر بیٹھتی ہیں، ’’میرے پاس اکثر ایسی لڑکیاں آتی ہیں جنہیں ماہواری نہ ہونے کے باعث طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہر ماہ اس عمل سے گزرنا تولیدی صحت کے لیے کس قدر ضروری ہے۔  شرم کے باعث نہ تو یہ بچیاں ڈاکٹر کا رخ کرتی ہیں اور نہ ہی بڑی بہنوں یا والدہ کو اپنی تکلیف سے آگاہ کرتی ہیں۔

ڈاکٹر شکیلہ انجم کے مطابق یہ بے خبری سنگین بیماریوں کی وجہ بنتی ہے، ’’ماہواری میں بے ترتیبی کی وجہ سے لڑکیوں کی اکثر تعداد poly cystic ovarian syndrome کا شکار ہو جاتی ہے جو وزن میں اضافے کے علاوہ بانجھ پن کی وجہ بھی بنتا ہے۔اس کے علاوہ درست اور کافی معلومات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے ایّامِ مخصوصہ میں کئی طرح کے انفیکشن ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔‘‘

ان مخصوص ایّام کے دوران خواتین کو کبھی کبھی نہایت ذلت آمیز معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: Fotolia/absolutimages

ڈاکٹر شکیلہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس آنے والی کئی خواتین ماہواری سے متعلق نہایت غلط اور فرسودہ معلومات رکھتی ہیں، ’’کسی کو یہ بتایا گیا ہوتا ہے کہ ان دنوں نہانا نہیں چاہیے، کسی کے خیال میں ان دنوں ورزش سے اجتناب ضروری ہے، بعض خواتین غذا کا صحیح خیال نہیں رکھتیں یا پھر مخصوص غذا لیتی ہیں۔ کچھ کے خیال میں ماہواری کا سائیکل ہر عورت کے لیے یکساں ہے اور اس میں ردّ وبدل ہو جائے تو یہ کسی بیماری کی نشانی ہے۔  کچھ خواتین پاکیزگی کے لیے ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر ہی ایسی دوائیں استعمال کرتی ہیں جس کے باعث ان کی ماہواری ایک سے لے کر کئی کئی ماہ تک رُک جاتی ہے۔ یہ سب صرف اور صرف نا کافی اور ناقص معلومات کا نتیجہ ہے جو صحت سے متعلق مختلف مسائل کو جنم دیتا ہے۔‘‘

بلوغت کے ساتھ کئی طبی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جن سے ہر خاتون کو گزرنا ہوتا ہے تصویر: Fotolia/Picture-Factory

 خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن زہرہ نسیم کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ماہواری کے حوالے سے بعض ایسے فرسودہ اور غلط خیالات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان مخصوص ایّام کے دوران خواتین کو کبھی کبھی نہایت ذلت آمیز معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ’’بعض گھرانوں میں مخصوص ایام کے دوران خواتین کو کچن کا رخ نہیں کرنے دیا جاتا۔ نہ ہی ایسی خواتین کے ہاتھ سے لے کرکوئی چیز کھائی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں اِس ‌حوالے سے شعور پیدا کیا جائے اور بتایا جائے کہ یہ ایک ایسا قدرتی عمل ہے جس پر عورت کو شرمندگی کا احساس دلانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

پاکستان میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنا البتہ ایک مشکل امر ہے۔ چند ماہ قبل لاہور کی ایک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی چند طالبات کی مخصوص ایام اور ان سے منسلک بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے، ان پر کھل کر بات کرنے اور اس حوالے سے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کے لیے ایک مہم چلائی تھی۔ مہم کے دوران طالبات نے یونیورسٹی کی ایک دیوار پر ایّام سے متعلق مختلف حقائق اور پیغام تحریر کیے تھے۔

کلاس پراجیکٹ کے طور پر کیے جانے والے ان کے اس اقدام کو اکثریت نے سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اس حرکت کو ایک مخصوص کلاس کی بے باکی اور بے شرمی سے تعبیر کیا گیا۔

خواتین کی صحت کے شعبے میں کام کرنے والے بعض افراد کا کہنا ہے کہ چونکہ ہمارا معشرہ اس موضوع پر اظہار خیال کو آج بھی مناسب نہیں سمجھتا، اس لیے ماہواری سے متعلق درست آگاہی دینے کے لیے کسی ایسے طریقے کی ضرورت ہے جس سے خواتین شرم و حیا کو مقدم رکھتے ہوئے معلومات حاصل کر سکیں۔ اس سلسلے میں وہ ’مہم‘ نامی موبائل ایپ کی مدد لے سکتی ہیں۔


مریم عادل نامی پاکستانی خاتون کی تیار کردہ اس گیم ایپ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں گیم کا ہر لیول جیتنے کے بعد ماہواری کے بارے میں غلط خیالات یا معلومات سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے اور طبی لحاظ سے درست اور کار آمد معلومات دی جاتی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں