پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نا اہلی کے حوالے سے پاکستان میں خارجہ امور کے ماہرین متفرق آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے عالمی سطح پر کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔
اشتہار
پاکستان کے سفارتی امور کے ممتاز ماہر اور سابق سفارت کار اقبال احمد خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس پیش رفت سے دنیا کو کوئی اچھا پیغام نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک ایسا ملک جہاں سے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نا اہل ہو چکے ہوں اور وزیر خزانہ بھی ایسے ہی مقدمات کی وجہ سے ملک سے باہر بیٹھا ہوا ہو، ایسے میں پاکستان سے اہم مذاکرات کرنے والے ملکوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کمٹ منٹس کا فالو اپ کیسے ہوگا۔‘‘
28 جولائی 2017 کو پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ گزشتہ نو ماہ میں چار سیاسی رہنماؤں کی نااہلیوں کے عدالتی فیصلوں کی تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو جولائی 2017 میں نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اسی تناظر میں نواز شریف کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اس فیصلے نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
جہانگیر ترین
مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نےعمران خان، درمیان میں، اور جہانگیر ترین، تصویر میں انتہائی دائیں جانب، کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان دونوں کو اثاثے چھپانے، جھوٹ بولنے اور دوسرے ممالک سے فنڈز لینے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا جائے۔ اس کیس کا فیصلہ دسمبر 2017 میں سنایا گیا تھا جس میں جہانگیر ترین کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
نہال ہاشمی
اس سال فروری میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نہال ہاشمی کو پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو عدلیہ کو دھمکانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں ایک ماہ سزائے قید بھی سنائی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/
نواز شریف پر تاحیات پابندی بھی
اس سال اپریل میں پاکستانی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی بھی عائد کر دی تھی۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے سنایا تھا۔ اس وقت 68 سالہ سابق وزیراعظم نواز شریف تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Pakistan Muslim League
خواجہ آصف
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اپریل کو پاکستان مسلم لیگ نون کے رکنِ قومی اسمبلی اور اب تک وزیر خارجہ چلے آ رہے خواجہ آصف کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ عدالت نے خواجہ آصف کو بھی پاکستانی دستور کے آرٹیکل 62(1)(f) کی روشنی میں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کر دیا۔ سپریم کورٹ کے مطابق اس آرٹیکل کے تحت نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency
5 تصاویر1 | 5
اقبال احمد خان کے مطابق خواجہ آصف حال ہی میں چینی صدر سے مل کر آ ئے تھے، ’’دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، طاقت کے مراکز بھی بدل رہے ہیں، روس اور چین کے ساتھ اہم بات چیت جاری ہے، خارجہ پالیسی کے کور ایشوز بشمول نیوکلر ایشو، مئسلہ کشمیر اور سی پیک کے منصوبے خارجہ امور کے بڑوں کی توجہ کے متقاضی ہیں، ان حالات میں کسی فیصلے سے دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ہم پاکستان کی جس اہم شخصیت سے بات چیت کر رہے تھے وہ تو صادق اور امین ہی نہیں ہے۔ اس سے ملک کی کریڈبیلٹی متاثر ہوتی ہے، ایسی صورتحال میں ملک کے اندر پائے جانے والے عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا تاثر بھی ملتا ہے۔ بعض لوگ اس سے یہ تاثر بھی لے سکتے ہیں کہ پاکستان میں سیکورٹی اور فارن پالیسی کے فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی انتخابی احتساب سے گذرنے کے باوجود کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘
اقبال احمد خان مزید کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد آئینی طور پر منتخب قیادت کی مسلسل تبدیلی خارجہ امور کے معاملات کو متاثر کرتی ہے اور کسی نئے آدمی کو خارجہ امور کو سمجھنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ عام طور پر ایسی صورت حال میں خارجہ پالیسی کے امور تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول اس اہم وقت پہ خارجہ امور میں سوچ کے واضح اور قیادت کے مستحکم ہونے کی ضرورت تھی۔ ’’ایک اچھی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے ثمرات کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی انجینئیرنگ سے اجتناب کرتے ہوئے جمہوریت کے حقیقی تسلسل کو فروغ دیا جائے۔‘‘
دوسری جانب ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے بتایا کہ خواجہ آصف کے خلاف آنے والا فیصلہ ایک آئینی عدالت کا ہے، جسے تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ملکی قوانین کے مطابق سنایا گیا ہے۔ ان کے بقول اس سے خارجی سطح پر کوئی بحران پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بقول دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ایک آدمی کے جانے کے بعد دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے برازیل، جرمنی اور میکسیکو کے علاوہ ادھر بھارت میں بھی نرسہما راؤ اور اندرا گاندھی سمیت کئی سیاسی لیڈروں کو عدالتی کارروائی کے نتیجے میں اپنے عہدے چھوڑنے پڑے تھے۔
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
12 تصاویر1 | 12
سردار آصف کے بقول دراصل ملکوں کے تعلقات ریاست سے ہوتے ہیں کسی انفرادی شخصیت سے نہیں، ’’اس کی ایک مثال پاکستان کے ساتھ دوست ملک چین کے تعلقات ہیں، جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے تو اس دور حکومت کا ایک بڑا حصہ بغیر کسی وزیر خارجہ کے ہی گذارا ہے۔ ’’اگرچہ یہ ایک ایسی بات ہے جس سے فرق ضرور پڑتا ہے لیکن خواجہ آصف کے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
سردار آصف احمد علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑے عرصے کے بعد ایک ’قابل اعتماد احتساب‘ شروع ہوا ہے۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سمیت سب پارٹیوں کے لوگ اس احتساب کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ’خود احتسابی‘ کا یہ سلسلہ پاکستانی سیاسی نظام کے لیے بہت اچھا ہے۔ ’’دہشت گردی کے بعد اب ملک سے کرپشن ختم ہو رہی ہے، اس سے ملک میں شفافیت آئے گی، سامایہ داروں کے اعتماد میں اضافہ ہوجا اور بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔‘‘
ادھر خواجہ آصف نے اپنی نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے آبائی شہر سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کے کارکن جشن منا رہے ہیں لیکن سیالکوٹ میں نون لیگ سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ آصف ’طاقت ور حلقوں کے خلاف کیے جانے والے مخصوص اظہار خیال‘ کی وجہ سے بھی اس حال کو پہنچے ہیں۔
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔