پاکستان کے صوبہ پنجاب میں قائم ’جینڈر گارڈئین اسکول‘ پاکستان کا پہلا ٹرانس جینڈر اسکول ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ اسکول ملک کے مخنث افراد کو ایک باوقار زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرے گا۔
اشتہار
اکیس اپریل کو جب اس اسکول کا آغاز کیا گیا تو پہلے دن ہی پچیس طلبہ نے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ پاکستان میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے علمبردار، اساتذہ اور وکلاء اس درس گاہ کو خواجہ سراؤں کے لیے ایک امید کی کرن قرار دے رہے ہیں۔
’ایکسپلورنگ فیوچر فاؤنڈیشن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے قائم کیے گئے اس اسکول میں طلبہ کو فیشن ڈیزائنگ، میک اپ کرنے اور کھانا پکانے سمیت آٹھ مختلف ہنر سکھائے جا رہے ہیں۔ اسکول انتطامیہ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس درس گاہ میں ایک عام اسکول میں پڑھائے جانے والے تعلیمی کورسز کا بھی آغاز کر دیا جائے گا۔
اسکول کے بانی آصف شہزاد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’پاکستان میں معذور افراد کے لیے اسکول ہیں، اقلیتوں کے لیے ہیں اور یتیم بچوں کے لیے بھی لیکن ٹرانس جینڈر افراد کے لیے کوئی درس گاہ موجود نہیں ہے۔ اسی لیے یہ اسکول بنایا گیا ہے تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر افراد کوئی ہنر بھی سیکھیں تاکہ وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔‘‘
شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ اس اسکول کا مقصد ملک میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے قائم منفی تاثر کو ختم اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ شہزاد نے کہا،’’اگر ٹرانس جینڈر کمیونٹی پڑھی لکھی ہوگی، خود مختار ہوگی تو وہ غیر مہذب پیشوں کی طرف راغب نہیں ہو گی۔‘‘
پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل کی دھوم
03:09
بے شک آئینی اور قانونی طور پر خواجہ سراؤں کو اب بہت سے حقوق حاصل ہیں لیکن پاکستانی معاشرے میں وہ اب بھی باعزت مقام حاصل نہیں کر پائے۔ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے مون نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’میں نے اس اسکول میں اس لیے داخلہ لیا ہےتاکہ میں اپنا نام بنا سکوں، جب میں خود مختار ہوں گی تو لوگ میری عزت بھی کریں گے۔‘‘
ایک اور طالب علم ارحم نے کہا،’’صرف میرے والدین مجھے بطور انسان قبول کرتے ہیں لیکن میرے کچھ رشتہ دار حالانکہ میرا اپنا بھائی میری عزت نہیں کرتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ تعلیم حاصل کر کے میں معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکوں گی۔‘‘ اس درس گاہ میں پڑھانے والی ایک ٹرانس جینڈر ٹیچر ثانیہ عباسی نے کہا،’’بطور استاد میں پوری کوشش کروں گی کہ اپنی کمیونٹی کو خود مختار بننے میں مدد فراہم کروں کیوں کہ جب یہ تعلیم اور تربیت حاصل کریں گے تو یقینا روزگار بھی حاصل کر پائیں گے۔‘‘
حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lemel
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘