خواجہ سرا اب آزادی سے امریکی فوج میں خدمات انجام دے سکیں گے
1 جولائی 2016جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے، ’’ہمارا مقصد ملک کا دفاع کرنا ہے اور ہم کسی شخص کی قابلیت سے تعلق نہ رکھنے والی وجوہات کی وجہ سے امریکی افواج میں اس کی بھرتی پر پابندی عائد نہیں کرسکتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی قابل افراد کو امریکی افوج میں بھرتی کرنے اور انہیں افواج کا حصہ بنائے رکھنے کے لیے ہماری رسائی امریکا کی پوری آبادی تک ہونی چاہیے۔
امریکی افواج کے وہ اہلکار جنہوں نے اپنے خواجہ سرا ہونے کو کسی خوف یا ڈر کی بنا پر چھپایا ہوا تھا اب کھل کر کام کر سکیں گے اور مزید خواجہ سرا ایک سال میں فوج میں بھرتی ہونے کے لیے اپنے ناموں کا اندراج کراسکیں گے۔ ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ امریکی فوج اس برس اکتوبر سے جنس تبدیل کرنے کے آپریشن اور علاج کا خرچہ بھی اٹھائے گی۔
سن 2011 میں ہم جنس پرست اہلکاروں کو اپنی شناخت ظاہر کرنے اور اس برس خواتین کو جنگی مشنز کا حصہ بننے کی اجازت دیے جانے کے بعد اب خواجہ سراؤں کو بھی اپنی شناخت کو کھل عام ظاہر کر کے کام کرنے کی اجازت دے دینے کے فیصلے کو ایک خوش آئند اقدم قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اور ’ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘ کے رکن میک تھورن بیری نے پینٹاگان کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے،’’ یہ پینٹاگون اور صدر اوباما کی جانب سے سیاست کو پالیسی پر ترجیح دینے کی ایک مثال ہے۔‘‘
امریکا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے معاملے پر سیاسی بحث کا آغاز تب ہوا جب شمالی کیرولائنا کے میں مقامی اسملبی کے ارکین نے ایک ایسا قانون پیش کیا جس کے تحت جنس تبدیل کرنے والے افراد کے لیے لازم ہو گا کہ وہ ان ٹوائلٹس کو استعمال کریں جو ان کی پیدائش کے وقت ان کی جنسی شناخت سے مطابقت رکھتے ہیں نا کہ اس جنس کے مطابق جس کے تحت وہ اب اپنی شناخت کرواتے ہیں۔