1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواجہ اجمیر کی درگاہ شیو کا مندر تھی، ہندوسینا کا دعویٰ

جاوید اختر، نئی دہلی
28 نومبر 2024

اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کی سروے کے نتیجے میں پرتشدد واقعات کے چند دنوں بعد اب اجمیر کی مقامی عدالت نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کے سروے کے حکم دیا ہے، جس سے ایک اور تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔

اجمیر کی مقامی عدالت نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کا سروے کرانے کا حکم دیا ہے
اجمیر کی مقامی عدالت نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کا سروے کرانے کا حکم دیا ہےتصویر: Salman Chishti

اجمیر کی مقامی عدالت کے سول جج منموہن چندیل نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کا سروے کرانے کا حکم دیا ہے۔ ہندو شدت پسند تنظیم ہندوسینا کے سربراہ وشنو گپتا اور دیگر کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مزار کو شیو مندر کی جگہ پر بنایا گیا ہے۔

بھارت: اب اجمیر میں خواجہ معین الدین درگاہ پر بھی ہندوؤں کا دعویٰ

سول جج منموہن چندیل نے بدھ کو مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور، آثار قدیمہ کے ادارے سروے آف انڈیا اور اجمیر شریف درگاہ کمیٹی کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ کیس کی اگلی سماعت 20 دسمبر کو ہو گی۔

'عدالت کا یہ عمل نامناسب اور غیرقانونی ہے‘

اوقاف کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن انعام الرحمان نے کہا کہ یہ نہ صرف نامناسب بلکہ غیرقانونی بھی ہے، ''کیونکہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئندہ ایسے معاملات اٹھائے نہیں جائیں گے۔ اس طرح کے اقدامات ملک کے لیے ہر طرح سے نقصان دہ ہیں۔‘‘

انعام الرحمان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کی نوٹس جاری کرنے میں نچلی عدالتوں نے مسابقت شروع کردی ہے۔ اس سے ملک کا امن وامان متاثر ہو رہا ہے، ماحول خراب ہورہا ہے، بھائی چارہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ رکنا چاہیے۔‘‘

بھارت میں قدیمی مسجد سے متعلق سروے کے باعث فساد، دو ہلاکتیں

انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت، عدلیہ، مسلمان اور اکثریتی ہندو فرقے میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔

پاکستانی اداکارہ وینا ملک اجمیر کی درگاہ پر حاضری دیتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/STR

’سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اس کے لیے ذمہ دار‘

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل راجیو رام چندرن اس نئی صورت حال کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ''فرقہ پرست عناصر نے قدیم مساجد اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ذمہ دار ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شرانگیز مہم کا دروازہ کھول دیا۔ حالانکہ بابری مسجد بنام رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مذہبی مقامات کے1947 سے پہلے کی حالت برقرار رکھنے کے متعلق قانون کے احترام اور پاسداری پر بڑا زور دیا تھا۔‘‘

بھارتی سپریم کورٹ نے شاہی عید گاہ مسجد کا سروے روک دیا

انعام الرحمان کے مطابق اس طرح کے نوٹس جاری کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے دیرینہ ایجنڈے کا حصہ ہے، ''ہندوتوا تنظیمیں ایک عرصے سے مسجدوں کے بارے میں جھوٹے اور بے بنیاد بیانیے کو پھیلا رہی ہیں۔ ایک اور وجہ مسلمانوں کو نیچا دکھانا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہے۔‘‘

بنارس کی گیان واپی مسجد، قوم پرست ہندو اسے شیو کا مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںتصویر: Sharique Ahmad/DW

ہندو سینا کا دعویٰ کیا ہے؟

ہندو سینا کے سربراہ وشنو گپتا کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجمیر کی درگاہ میں ''کاشی اور متھرا‘‘ کی طرح ایک مندر موجود ہے، ''برطانوی دور حکومت میں ایک اہم عہدے پر فائز ہربلاس سردا نے 1910 میں اجمیر  کی درگاہ میں ایک ہندو مندر کی موجودگی کے بارے میں لکھا تھا۔‘‘

گپتا کے مطابق، اپنی ایک کتاب میں، سردا، جو ایک جج، سیاست دان اور ایک ماہر تعلیم تھے، نے درگاہ کے بارے میں لکھا: ''روایت کہتی ہے کہ تہہ خانے کے اندر ایک مندر میں مہادیو کی مورتی ہے، جس پر ایک برہمن خاندان کی طرف سے جسے درگاہ نے ابھی تک گھڑیالی (گھنٹی بجانے والا) کے طور پر برقرار رکھا ہوا ہے، ہر روز صندل رکھا جاتا تھا۔‘‘

گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر(درگاہ) کا ڈھانچہ ہندو اور جین مندروں کو منہدم کرنے کے بعد بنایا گیا تھا، ’’اس لیے ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور کم از کم سروے کرایا جائے تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ ان کی تنظیم چاہتی ہے کہ درگاہ کو ہندو مندر قرار دیا جائے، ہمیں پوجا کی اجازت دی جائے اور اگر محکمہ آثار قدیمہ نے کوئی رجسٹریشن دیا ہے تو اسے منسوخ کر دیا جائے۔‘‘ہندو سینا کے رہنما کا مزید کہنا ہے کہ چشتی صاحب یہاں پیدا نہیں ہوئے اور وہ یہاں کے نہیں تھے، ''تو، اس سے پہلے یہاں کون تھا؟ پرتھوی راج چوہان اور یہ شہر اجے میرو کے نام سے جانا جاتا تھا۔‘‘

درگاہ کمیٹی کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تنوع اور تکثیریت کی علامت ہےتصویر: Salman Chishti

درگاہ کمیٹی کا ردعمل

درگاہ کے سجادہ نشینوں کی تنطیم انجمن سید زادگان کے سکریٹری سید سرور چشتی نے بتایا، ''ہم نے بابری مسجد کیس میں عدالتی فیصلے کے بعد ایک تلخ گولی نگلی تھی اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ دوبارہ نہیں ہو گا۔ یہ اس ملک کے مفاد میں ہے۔ لیکن کاشی، متھرا، سنبھل یہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔‘‘ انہوں نے یاد دلایا کہ 22 جون کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ لوگوں کو ہر مسجد میں شیولنگ نہیں ڈھونڈنا چاہییں۔

سید سرور چشتی کا مزید کہنا تھا، ''درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تنوع اور تکثیریت کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں خواجہ معین الدین چشتی کے کروڑوں پیروکار ہیں اور اس طرح کے مقدمات ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔‘‘

ستمبر میں، جب یہ مقدمہ پہلی بار موجودہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، تو اس وقت کے جج نے اسے خارج کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ ہر دوسرے دن مجرم ایک نیا دعویٰ لے کر سامنے آجائیں۔ درگاہ تمام مذاہب کے لیے عبادت گاہ رہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔‘‘

بابری مسجد کا نعم العبدل نہیں بھارتی مسلمان اب کیا چاہتے ہیں؟

04:34

This browser does not support the video element.

مسلم مذہبی مقامات کو ہندو مندر قرار دینے کی مہم

چند دنوں قبل راجستھان کی بھجن لال شرما حکومت نے اجمیر کے سرکاری ملکیت والے ہوٹل 'خادم‘ کا نام تبدیل کر کے 'اجے میرو‘ رکھ دیا ہے۔ راجستھان اسمبلی کے اسپیکر واسودیو دیونانی نے دعویٰ کیا تھا کہ راجستھان کے 12ویں صدی کے جنگجو بادشاہ پرتھوی راج چوہان کے دور میں اجمیر اجے میرو کے نام سے مشہور تھا۔

خیال رہے کہ ہندو قوم پرستوں نے تاریخ مساجد، مقابر اور مسلم مذہبی مقامات کو ہندو مندر قرار دینے کی ایک مسلسل مہم چلا رکھی ہے۔ حالانکہ تمام عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنے کے لیے نافذ کیے گئے عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991، کے سیکشن 4 کا واضح حکم ہے کہ تمام عبادت گاہوں کا مذہبی کردار اسی طرح برقرار رہے جیسا کہ 15 اگست 1947 کو تھا، جس سے تاریخی تسلسل اور متنوع روایات کے احترام کو تقویت ملتی ہے۔

یہ نیا تنازعہ ایسے وقت شروع ہوا ہے، جب اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کی عدالتی حکم پر سروے کے دوران پرتشدد واقعات میں کم از کم چھ مسلمان ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے رکن پارلیمان ضیاء الرحمان برق سمیت ڈھائی ہزار سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں