1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خوبصورتی کا قفس اور آئینے میں قید عورت

6 مئی 2025

جنوبی ایشیائی عورت کی سانولی رنگت کو ایک خامی بنا کر پیش کیا جاتا رہا اور خواتین کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی اصل قدرو قیمت صرف گوری رنگت میں پوشیدہ ہے۔

تصویر: privat

خوبصورتی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے، مگر یہ خواہش کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے  اور اس کا تعین کون کرتا ہے؟ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا، اشتہارات، اور ٹی وی اسکرینز "خوبصورتی" کی ایک مخصوص، غیر فطری اور اکثر ناقابلِ حصول شکل متعین کر چکی ہیں، تو کیا یہ فیصلہ اب بھی عورت کے اپنے اختیار میں ہے؟

صاف رنگت، متناسب خدوخال اور خوش لباسی کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ عورت کو جمالیاتی حسن کا پیکر مانا گیا، مگر جیسے ہی وہ خوبصورتی کے ساتھ ذہانت، علم، حسِ مزاح یا فکری بلوغت کا اظہار کرتی ہے، تو یہی معاشرہ جو اس کی ظاہری دلکشی پر فریفتہ تھا، اس کی ذہنی گہرائی سے خائف ہو جاتا ہے۔ معاشرہ عورت کے ذہن کو ظاہری خوب صورتی کے پردے کے پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔ عورت یا تو حسن کی علامت ہو، یا دانائی کی، دونوں کا امتزاج اکثر ناقابلِ قبول ٹھہرتا ہے۔ یہی سوچ کاسمیٹکس اور بیوٹی انڈسٹری کے تسلط کو دوام بخشتی ہے، جو عورت کو صرف ایک جسمانی مظہر میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ صرف ظاہری خوب صورتی کے عمیق سمندر میں ہی بہتی رہے۔ کم عمر نظر آنے کے لیے جدوجہد کرتی رہے۔

مختلف ذرائع کے مطابق 2023 میں عالمی بیوٹی انڈسٹری کی مالیت 400 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی، اور 2025 تک اس کے مالیت 677 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ گویا خوبصورتی صرف ایک خواب نہیں، ایک زبردست کاروبار بھی ہے۔ یہ وہ صنعت ہے جو ہر عورت کو باور کراتی ہے کہ "تم جیسی ہو، وہ کافی نہیں۔"

پچھلے سال دنیا میں پنجے گاڑھتی استھیٹک کی صنعت اور معاشرے کے بے رحم رویوں پر مبنی ایک جرأت مندانہ فلم سامنے آئی Substance۔

سبسٹینس یعنی مادہ یا اصل۔ یہ فلم صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ آج کے سماج میں پنپتے ہوئے اس جنون کی عکاسی ہے جسے ہم نے "خوبصورتی" کا نام دے رکھا ہے۔ یہ فلم علامتی انداز میں یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا واقعی عورتیں خوبصورت اور جوان دکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں یا مردوں کا معاشرہ انہیں اس جانب دھکیل رہا ہے؟ کیا جسمانی ساخت، رنگ و روپ، اور ظاہری نقوش ہی انسانی پہچان کے بنیادی اجزا بن چکے ہیں؟

فرانسیسی خاتون ہدایتکارہ کی یہ علامتی فلم دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ جیسے کیمرہ نہیں، آئینہ دکھایا جا رہا ہو۔ فلم کا مرکزی کردار ڈیمی مور ہیں، جنہوں نے ایک عمر رسیدہ ماڈل کا کردار ادا کیا ہے۔وہ اپنی شناخت اور خوبصورتی کی بازیابی کے لیے ایک نئی دوا کا استعمال شروع کرتی ہیں۔ یہ دوا جسمانی تبدیلی کے ذریعے اسے "نئی زندگی" دیتی ہے، مگر اس نئی زندگی میں وہی پرانا سچ چھپا ہوتا ہے کہ عورت جتنی بھی بدلے، معاشرہ اسے اپنی اصل صورت میں کبھی قبول نہیں کرتا۔

ایک منظر میں وہ اداکارہ، جوان ہو چکی ہوتی ہے، آئینے میں خود کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوف و حیرانی کا امتزاج ہے۔ وہ اپنے نئے چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہے، مگر اندر ایک گھبراہٹ ہے: کیا میں یہی ہوں؟

ایک اور منظر میں اس کا پرانا وجود، ایک بے جان جسم کی مانند ایک کرسی پر گرا ہوا ہے وہ اصل، جسے خوبصورتی کی نئی تعریف نے مار دیا ہے۔ سبسٹینس ایک سوالنامہ ہے کہ ہم کس حد تک جا سکتے ہیں؟ اور کیوں؟ کیا یہ صرف ذاتی انتخاب ہے؟ یا دباؤ؟

ڈیمی مور نے فلم Substance میں مرکزی کردار قبول کرنے کا فیصلہ محض اداکاری کے جوہر دکھانے کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے ایک ذاتی اور گہرا تجربہ پوشیدہ تھا۔ وہ خود اپنی زندگی میں کاسمیٹک سرجریوں کے ایک ایسے کٹھن سفر سے گزر چکی ہیں جس نے نہ صرف ان کے چہرے کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا، بلکہ ان کی شناخت، خود اعتمادی اور اندرونی سکون پر بھی کاری ضرب لگائی۔

ڈیمی مور کا اعتراف ہے کہ خوب صورتی کے تعاقب میں انہوں نے کئی ایسے فیصلے کیے جو وقتی طور پر دل کو بھلے لگے، مگر وقت کے ساتھ یہ تجربات ان پر بھاری پڑے۔ ان کا چہرہ، جو برسوں سے شائقینِ سینما کے لیے ایک پہچان تھا، مصنوعی تبدیلیوں کے بعد اجنبی سا محسوس ہونے لگا۔ نہ وہ خود کو پہچان سکیں، نہ دوسروں کی نظر میں وہ پہلے والی رہیں۔

مگر وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے ۔ ڈیمی مور کہتی ہیں، "مجھے وقت کے ساتھ یہ ادراک ہوا کہ بڑھتی عمر میں بھی خوب صورتی، وقار اور کشش ممکن ہے۔" یہ ایک عورت کی وہ داخلی جیت ہے، جو عمر کے ہر مرحلے پر نئی شناخت کے ساتھ جینا سیکھتی ہے۔

وہ کہتی ہیں، "آج اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں ماضی کی 'ڈیمی مور' بن جاؤں، تو میں صاف انکار کر دوں گی کیونکہ یہ دور میری زندگی کا اصل عروج ہے، نہ صرف میرے کیریئر کا، بلکہ میری ذہنی سطح، شعور اور خود فہمی کا بھی۔"

یہ الفاظ محض ایک اداکارہ کی خود کلامی نہیں، بلکہ ہر اس عورت کی آواز ہیں جو "جوانی کی خوب صورتی" کے بت کو پاش پاش کر کے وقار کی خوب صورتی کو اپنا شعار بناتی ہے۔ ڈیمی مور کا یہ انتخاب، Substance میں ان کی اداکاری، اور ان کی ذاتی کہانی سب مل کر ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دیتے ہیں کہ اصل خوب صورتی وہی ہے جو وقت کی چھاپ کو عزت کے ساتھ قبول کرے، نہ کہ اسے مٹانے کی کوشش میں اپنا اصل مٹا دے۔

کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ان کی قدر صرف ان کے چہرے میں ہے؟

کیا سوشل میڈیا، فلٹرز اور اشتہارات ہمیں خود سے بیگانہ کر رہے ہیں؟ جب استھیٹک کلینکس کے دروازے ہر گلی میں کھلنے لگیں، جب "enhance yourself" جیسی زبان معمول کا حصہ بن جائے تو انسان خود سے دور ہونے لگتا ہے۔

یہ عورت ہی نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ خوب صورت نظر آئے لیکن فقط ظاہری خوب صورتی کے حصول میں کہیں اپنی اصل شناخت نہ کھو بیٹھیں یہ اس وقت کا اہم سوال ہے۔

خوبصورتی کا قفس، چاہے وہ شفاف ہو یا سنہرے رنگ کا قفس ہی رہتا ہے۔ اور اصل آزادی تب ہے جب عورت آئینے میں صرف چہرہ نہیں، اپنی اصل پہچان دیکھ سکے اور اس پر فخر کر سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں