خوبصورتی کے لیے ہزاروں ڈالرز کے بدلے بدصورتی
18 فروری 2015امید کے برخلاف پلاسٹک سرجری کے بعد ان کے مطابق ان کی شکل الٹا خراب ہو گئی ہے۔ چین ییلی کی طرح ایسی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ قانونی تقاضوں کے بغیر جنوبی کوریا کی تیزی سے فروغ پاتی ہوئی ’میڈیکل ٹورازم‘ یا طبی سیاحت کی صنعت سے انہیں جسمانی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
چین ییلی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ان کا کہنا تھا کہ وہ میرے چہرے کو جنوبی کوریا کے باشندوں جیسا بنا دیں گے اور میری ناک، ہونٹوں اور تھوڑی کو بھی بہتر بنا دیں گے لیکن جب میرے دوستوں نے بعد میں میری ناک کو دیکھا تو وہ تما ششدر ہو کر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹیڑھی اور بُری شکل والی تھی۔‘‘
سیول حکومت نے پلاسٹک سرجری کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کی سلامتی کے لیے حال ہی میں غیر قانونی ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ ایسے کلینکس کے خلاف بھی بھرپور مہم شروع کی ہے، جو رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔
چین کی اپنی پلاسٹک سرجری کی مارکیٹ کا حجم دَسیوں ارب ڈالر ہے تاہم وہاں اس عمل کے محفوظ ہونے کے حوالے سے کافی زیادہ خدشات پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ چینی شہری اب اس طرح کے آپریشنز کے لیے جنوبی کوریا کا رخ کر رہے ہیں۔
رواں مہینے چینی اخبار ’سدرن ویکلی‘ نے خبر دی تھی کہ چینی شہری پلاسٹک سرجری کے لیے جنوبی کوریا کے مقامی باشندوں کے مقابلے میں عام طور پر دگنی سے بھی زیادہ رقم ادا کرتے ہیں۔
چین میں ایسے سینکڑوں لوگوں کی طرف سے ایک ’آن لائن سپورٹ گروپ‘ تشکیل دیا گیا ہے جن کا الزام ہے کہ جنوبی کوریا میں سرجری کے بعد انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا دعویٰ ہے کہ جنوبی کوریا کے ہسپتالوں کی جانب سے پلاسٹک سرجری سے قبل انہیں اس کے منفی اثرات کے بارے میں مطلع نہیں کیا جاتا۔
’طبی سیاحت‘ بچانے کے لیے سیئول حکومت کا کریک ڈاؤن
سیئول حکومت نے جمعہ 13 فروری کو غیر رجسٹرڈ شدہ کلینکس اور غیر قانونی ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد طبی سیاحت کے لیے جنوبی کوریا کا رُخ کرنے والے لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے جن کی زیادہ تر تعداد پلاسٹک سرجری کے لیے اس ملک کا رُخ کرتی ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت صحت کے مطابق غیر رجسٹر شدہ کلینکس اور حکومتی اجازت کے بغیر غیر ملکی مریضوں کا علاج کرنے والے ہسپتالوں کے خلاف جرمانے عائد کیے جائیں گے اور ذمہ داروں کو قید کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
جنوبی کوریا کی پلاسٹک سرجن ایسوسی ایشن کے ترجمان چو سُو ینگ کے مطابق بعض کلینک حکومتی لائسنس کے بغیر چینی مریضوں کا علاج کر رہے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں بہت زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے۔
جنوبی کوریا کی ’طبی سیاحت‘ کہلانے والی اس صنعت کا مالیاتی حجم 2013ء میں 360 ملین ڈالر کے برابر بتایا گیا تھا۔ اپنی پلاسٹک سرجری کے لیے جنوبی کوریا کا رخ کرنے والے غیر ملکی سیاحوں میں چینی شہری سرِفہرست تھے، جن کی تعداد پچیس ہزار چار سو سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ جنوبی کوریائی وزارتِ صحت کے مطابق یہ تعداد اُس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں ستّر فیصد زیادہ تھی۔