چینی صدر شی جن پنگ نے خبردار کیا ہے کہ ان کا ملک اپنی خودمختاری کا دفاع تندی اور جانفشانی سے کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ جارحیت کے خلاف ہے لیکن کسی حملے کے پیش نظر ملکی فوج جنگ کے لیے تیار رہے۔
اشتہار
چینی صدر شی جن پنگ نے فوج سے کہا ہے کہ وہ اصلاحات اور خود کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل کو تیز کر دے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے نوے برس مکمل ہونے کے موقع پر یکم اگست بروز منگل انہوں نے بیجنگ میں کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کمیونسٹ پارٹی اور فوج کی اعلیٰ قیادت سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ چین جارحیت کے خلاف ہے لیکن ان کا ملک تمام حملہ آوروں کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے۔
چینی صدر کا یہ پیغام ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب کمیونسٹ پارٹی کو نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ میں سیاسی مزاحمت کا سامنا ہے۔ چین کے اس نیم خود مختار علاقے کے کئی حلقوں کے مطابق بیجنگ اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کے علاوہ بحیرہ جنوبی چین کا تنازعہ بھی سر اٹھا رہا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات میں بھی شدت دیکھی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں چینی صدر نے کہا، ’’ہم کسی گروہ، ادارے یا سیاسی پارٹی کو چین کے کسی علاقے کو تقسیم نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ بیجنگ کے گریٹ ہال میں خطاب کرتے ہوئے شی جن پنگ نے اصرار کیا کہ سکیورٹی اور ترقیاتی معاملات پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سن دو ہزار بارہ میں اقتدار سنبھالنے والے شی نے حکمران پارٹیوں کے ناقدین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے اور ساتھ ہی سرحدی تنازعات پر سخت مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
تصویر: DW
10 تصاویر1 | 10
شی جن پنگ ملکی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی خاطر کئی اقدامات بھی اٹھا چکے ہیں۔ ماضی میں کے مقابلے میں اب چینی حکومت اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ بھی کھل کر رہا ہے۔ اتوار کے دن ہی چین ميں ایک بڑی فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گيا تھا، جس میں شی جن پنگ فوجی وردی میں ملبوس ہو کر شریک ہوئے تھے۔
پیپلز لبریشن آرمی کی 90 ویں سال گرہ کے تناظر میں منعقد کی گئی اس عسکری پریڈ میں 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ ساتھ پانچ سو گاڑیاں بھی شامل تھيں۔ اس موقع پر فوجی ترانے بھی بجائے گئے جب کہ پریڈ میں لڑاکا طیاروں کے ساتھ ساتھ دور فاصلے تک مار کی صلاحیت کے حامل میزائل بھی شامل کیے گئے تھے۔ صدر شی جن پنگ نے عسکری پریڈ کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ چین کو ایک زبردست فوج کی ضرورت ہے۔