1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خودمختار ریاست: فلسطینی درخواست آج اقوام متحدہ میں

افسر اعوان29 دسمبر 2014

فلسطینی ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود منوانے کے لیے حتمی قرارداد آج پیر 29 دسمبر کو اقوام متحدہ میں جمع کرا رہے ہیں۔

تصویر: Reuters

حکام کے مطابق اس قرارداد میں اسرائیل کے ساتھ ایک سال کے اندر امن معاہدہ اور 2017ء کے آخر تک فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

فلسطینی نیوز ایجنسی WAFA کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو بذریعہ ٹیلفون مطلع کر دیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی طرف سے مخالفت کے باوجود وہ یہ قرارداد ضرور سلامتی کونسل میں پیش کریں گے۔

متعدد یورپی ممالک کی خواہش تھی کہ اس قرارداد میں وقت کے حوالے سے نرم شرائط رکھی جائیں۔ ان ممالک کا خیال تھا کہ ایسی صورت میں فلسطینی قرارداد کو زیادہ سپورٹ مل سکتی تھی۔

سینیئر فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’آج عرب گروپ نیویارک میں ملاقات کرے گا اور حتمی ڈرافٹ سلامتی کونسل میں پیش کرے گا، اس امید کے ساتھ کہ اس پر کل یا پرسوں تک ووٹنگ کا عمل مکمل ہو جائے گا۔‘‘

امریکا اور اسرائیل کی مخالفت کے باوجود وہ یہ قرارداد ضرور سلامتی کونسل میں پیش کریں گے، محمود عباستصویر: Reuters/M. Torokman

فلسطینی حکام کے مطابق اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 1967 کی مشرق وُسطیٰ جنگ میں اسرائیل کی طرف سے قبضہ کیے گئے علاقوں سے قبل کی صورتحال بحال کرنے حوالے سے مذاکرات کیے جائیں۔ ان میں مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور غزہ پٹی کے علاقے شامل ہیں۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے مطابق، ’’قرارداد کے مسودے میں مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ قرارداد کی منظوری کے بعد 12 ماہ کے اندر تمام مسائل کے حل تک پہنچا جائے اور 2017ء کے آخر تک اسرائیل کی جانب سے1967ء کی جنگ میں قبضہ کیے گئے علاقوں کو وا گزار کرایا جائے۔ اس میں دو خودمختار، جمہوری اور محفوظ ریاستوں فلسطین اور اسرائیل کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔‘‘

اسرائیل نے غزہ پٹی سے اپنے فوجی اور آبادکاروں کو واپس بُلا لیا تھا تاہم اس کا مؤقف ہے کہ اگر وہ مکمل طور پر مغربی کنارے سے نکل گیا تو اس کی مشرقی سرحد غیر محفوظ ہو جائے گی۔

اردن کی طرف سے 17 دسمبر کو سلامتی کونسل میں جو مسودہ پیش کیا گیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل اور فلسطین کا مشترکہ دارالحکومت بنا دیا جائے۔

اسرائیل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل میں فلسطینی قرارداد پر ووٹنگ کئی دہائیوں پر محیط تنازعے کو مزید گہرا کر دے گی۔ اسرائیل مذاکرات پر تو رضامندی ظاہر کرتا ہے مگر کسی تیسرے فریق کی طرف سے وقت کے حوالے سے اہداف قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ روز اپنی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت ہر ایسی کوشش کو سختی سے ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہے گا جو ان کے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہو۔

سلامتی کونسل میں فلسطینی قرارداد کی منظوری کے لیے نو ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو پھر امریکا اپنے قریبی حلیف اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرے گا کہ اس قرارداد کو ویٹو کیا جائے یا نہیں۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری قبل ازیں یہ واضح کر چکے ہیں کہ ایسی صورت میں امریکا اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں