خودکشی کرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ
1 اکتوبر 2020
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس حاضر سروس امریکی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان میں تیس فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اعلی حکام فوجیوں میں خودکشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے پریشان ہیں۔
اشتہار
ستائیس سالہ اسٹاف سارجنٹ جیسن لوو کے کسی ایک ساتھی کو بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ان کے اندر کون سی کشمکش جاری ہے۔ وہ ٹاپ پرفارمر پیراٹروپر تھے۔ آرمی ایڈوانس لیڈر کورس میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور اسی وجہ سے ان کی بیاسویں ایئربورن ڈویژن میں جلد ہی ترقی بھی متوقع تھی۔ فوج میں گریجویشن کے پانچ دن بعد سارجنٹ جیسن لوو نے کسی بھی کال یا ٹیکسٹ میسج کا جواب دینا چھوڑ دیا۔
ان کے ساتھی اور اسٹاف سارجنٹ رائن گریو نارتھ کیرولینا میں ان کے فلیٹ میں گئے۔ دروازہ کھولا گیا تو پتا چلا کہ ستائیس سالہ سارجنٹ جیسن لوو خودکشی کر چکے ہیں۔ ابھی تک ان سوالات کے جوابات کسی کہ پاس نہیں ہیں کہ انہوں نے خودکشی کیوں کی۔ اسٹاف سارجنٹ رائن گریو کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اسے کسی معاشی مسئلے کا سامنا نہیں تھا اور نہ ہی ریلیشن شپ کا کوئی مسئلہ تھا۔‘‘
خودکشیوں میں اضافہ کیوں؟
رواں برس امریکی فوج کی صرف بیاسویں ایئربورن ڈویژن میں یہ دسویں خودکشی تھی۔ میجر جنرل کرسٹوفر ڈوناہیو کہنا ہے کہ وہ ان خودکشیوں کے محرکات جاننے سے قاصر ہیں۔ تاہم جولائی میں ڈویژن کے حکام نے کہا تھا کہ فوجیوں کی بیرونی ملک تعیناتی، تنہائی اور کورونا وائرس جیسے عناصر خودکشیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
امریکی فوج میں خودکشیوں کا رجحان ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ امریکی حکام کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور اگر حاضر سروس فوجیوں کی خودکشی کی بات کی جائے تو یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں تیس فیصد زائد بنتی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق اس کی بڑی وجوہات میں فوجیوں کی جنگی علاقوں میں تعیناتی، قدرتی آفات سے مقابلہ اور امریکی شہروں میں بدامنی کے وہ واقعات ہیں، جہاں ان فوجیوں کو امن و امان کے لیے بلایا جاتا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اب فوجیوں کی جنگ زدہ علاقوں میں تعیناتی کی مدت کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کا مزید خیال رکھنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ اسی طرح ذہنی دباؤ کے شکار فوجیوں کا پتا لگانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جائے گی۔
امریکی حکام نے رواں برس کی خودکشیوں کی مجموعی تعداد نہیں بتائی لیکن مارچ کے بعد سے صرف ایئر فورس میں تقریبا ایک سو اہلکاروں نے خودکشیاں کی ہیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں تقریبا 541 فوجیوں نے اپنی جان خود لی تھی۔
ا ا / ع ا (اے پی)
روسی فوجی اسکول، ’مورچوں میں بچپن‘
روس میں قائم فوجی اسکولوں میں بچے ریاضی اور تاریخ کے ساتھ ساتھ جنگی ساز و سامان کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کا مقصد ریاستی سر پرستی میں ایک عسکری اور محب وطن اشرافیہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
روشن مستقبل
آج کے دور میں اگر کوئی روسی شہری اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا خواہاں ہے، تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے ملک میں قائم دو سو سے زائد کیڈٹ اسکولوں میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کریں۔ ان اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عکسری تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کے لیے بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
مادر وطن کے لیے
اسکول میں پریڈ: ماسکو حکومت نے 2001ء میں ایک تربیتی منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد بچوں میں خصوصی طور پر وطن کے لیے محبت بڑھانا تھا۔ فوجی اسکول اور نیم فوجی کیمپس اس منصوبے کا حصہ تھے۔ اگر بچے اپنے کیڈٹ اسکول میں ایک فوجی کی طرح پریڈ کرنا چاہتے ہیں تو حب الوطنی کا جذبہ ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک قدیم روایت
جنوبی روسی علاقے اسٹاروپول کے کیڈٹ اسکول کے بچے ایک پُر وقار تقریب کے ساتھ اپنے تعلیمی سال کا آغاز کرتے ہیں۔ جیرمیلوف جیسے دیگر کیڈٹ اسکولز روس میں ایک قدیم روایت رکھتے ہیں۔ زار اور اسٹالن کے زمانے کے اشرافیہ نے انہی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وجہ سے ان اسکولوں میں داخلے کا نظام بہت سخت ہے۔ صرف ذہین اور جسمانی طور پر فٹ بچوں کے ہی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک جنرل سے منسوب
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول 2002 ء میں بنایا گیا تھا اور یہ جنرل الیکسی پیٹرووچ جیرمیلوف سے منسوب ہے۔ جنرل جیرمیلوف نے انیسویں صدی میں نیپولین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور انہیں روس میں ایک جنگی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
نظم و ضبط
اس اسکول میں تعلیم کا حصول کسی پتھریلے راستے پر چلنے سے کم نہیں۔ اگر یہ بچے ایک کامیاب فوجی بننا چاہتے ہیں تو انہیں لازمی طور پر سخت تربیت کرنا پڑتی ہے۔ ان کیڈٹس کو باکسنگ اور مارشل آرٹ سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فٹنس کے سخت مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
فائرنگ کیسے کی جاتی ہے
سخت جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو ہتھیار بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں اسلحہ بارود کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور فوجی انہیں فائرنگ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
لڑکیاں بھی خوش آمدید
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول میں لڑکیوں کو بھی اعلی فوجی بننے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح خندقیں کھودتی ہیں اور انہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی جنگل میں پھنس جائیں یا گم ہو جائیں تو وہاں سے کس طرح سے نکلا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
چھاتہ برداری
یہاں پر صرف تندرست اور ذہین ہی نہیں بلکہ بچوں کا باہمت ہونا بھی ضروری ہے۔ بہت سے والدین عام زندگی میں اپنے بچوں کو جن چیزوں سے روکتے ہیں ملٹری اسکولوں میں وہ روز مرہ کے معمول کا حصہ ہیں۔ پپراشوٹ جمپنگ اس کی ایک مثال ہے۔