’ایلان کردی‘ سمندر میں تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچائے گا
11 فروری 2019
ایلان کردی ایک ایسے معصوم تارک وطن بچے کا نام تھا، جس کی ترکی کے ایک ساحل سے ملنے والی لاش پوری دنیا کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا بن گئی تھی۔ اب اس بچے کے نام کا ایک جرمن بحری جہاز سمندر میں تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچائے گا۔
اشتہار
ایلان کردی شام کا کرد نسل کا ایک ایسا بچہ تھا، جو ستمبر 2015ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ یورپ کی طرف سفر میں تھا۔ اس کے والد عبداللہ کردی نے انسانوں کے اسمگلروں کو رقوم دے کر یہ انتظام کیا تھا کہ اس کے خاندان کو ایک کشتی کے ذریعے ترکی سے یونان کے ایک جزیرے پر پہنچایا جانا تھا۔
اس خاندان کو اسمگلروں کی طرف سے مہیا کی گئی ربڑ کی کشتی میں ایلان، اس کا بھائی غالب، والدہ ریحانہ، والد عبداللہ کردی اور کئی دیگر تارکین وطن بھی سوار تھے۔ یہ کشتی طوفانی لہروں کی وجہ سے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔ اس واقعے میں ایلان، اس کا بھائی اور اس کی والدہ سمندر میں ڈوب گئے تھے جبکہ اس کا والد زندہ بچ گیا تھا۔
پھر ایلان کردی کی ننھی لاش کو سمندر کی لہروں نے لا کر ترکی میں بودرُم کے ساحل پر پھینک دیا تھا۔ اس بچے کی لاش کی دنیا بھر میں گردش کرنے والی تصویریں عالمی ضمیر کے لیے ایک بڑا دھچکا اور انتہائی تکلیف دہ منظر ثابت ہوئی تھیں۔
امدادی بحری جہاز کا نام ’ایلان کردی‘
اب کھلے سمندروں میں یورپ آنے کے خواہش مند تارکین وطن کو بچانے والی ایک جرمن تنظیم نے اپنے ایک چھوٹے امدادی بحری جہاز کا نام ایلان کردی کے نام پر رکھ دیا ہے۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی اور اس رسم کے لیے ایلان کردی کے والد عبداللہ کردی کو خاص طور پر مدعو کیا گیا۔
اس جرمن بحری جہاز کا نام ماضی میں ’پروفیسر البریشت پَینک‘ تھا اور اسے ایلان کردی سے موسوم کرنے کی تقریب اسپین میں پالما دے مایورکا کی ایک بندرگاہ میں منعقد کی گئی۔ یہ جہاز جرمن شہر ریگنزبرگ میں قائم بحری امدادی تنظیم ’سی آئی‘ (Sea Eye) کی ملکیت ہے۔
سب سے اہم بات
’سی آئی‘ کے ترجمان گورڈن اِیزلر کے مطابق، ’’اس ریسکیو شپ کا نام ’ایلان کردی‘ رکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یاد رہے کہ اہم ترین بات کیا ہے؟ واحد بہت اہم بات یہی ہے کہ ان انسانوں کے بدقسمتی اور ان کے لواحقین کے لامتناہی درد کو یاد رکھا جانا چاہیے، جو بہتر مستقبل کے لیے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہر روز بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔‘‘
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایلان کردی کے والد عبداللہ کردی نے کہا، ’’میں Sea Eye کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے اس جہاز کا نام تبدیل کر کے میرے بیٹے کا نام پر رکھا ہے۔ اب اس معصوم بچے کا نام کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال ہو سکے گا اور اس کی روح کو بھی چین ملے گا۔‘‘ عبداللہ کردی کے مطابق ایسے کئی ہزار دیگر خاندان بھی ہیں، جنہوں نے اپنے بہت پیارے اور معصوم بچے اسی طرح کی المناک اموات کی صورت میں گنوا دیے ہیں۔
ساٹھ سے زائد سمندری امدادی مشن
’سی آئی‘ تارکین وطن کی مدد کرنے والی ایک ایسی جرمن امدادی تنظیم ہے، جو 2016ء سے لے کر اب تک بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنے 60 سے زائد ریسکیو مشنوں کے ذریعے غیر محفوظ کشتیوں میں یورپ کی طرف سفر کرنے والے 14 ہزار سے زائد انسانوں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا چکی ہے۔
اب اس جرمن تنظیم کو بھی کئی دیگر جرمن اور یورپی امدادی تنظیموں کی طرح یورپی یونین کے رکن متعدد ممالک کی طرف سے اپنی امدادی کارروائیوں کے خلاف مسلسل سخت سے سخت تر ہوتے ہوئے اقدامات کا سامنا ہے۔
م م / ع س / ڈی پی اے، اے ایف پی
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔