خود مختار، متحدہ کشمیر: کیا جرمن اتحاد ماڈل ثابت ہو سکتا ہے؟
4 نومبر 2019
پاکستان اور بھارت کے مابین منقسم کشمیر کے اتحاد اور خود مختاری کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا جرمن اتحاد کے عمل کا ایک ماڈل کے طور پر کشمیر پر اطلاق ممکن ہے؟
اشتہار
اس سال پانچ اگست کو نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے جموں کشمیر کے متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر نے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ اکتیس اکتوبر کو جموں و کشمیر کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے کو مزید دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کرکے دونوں کو بھارت کے نئی یونین علاقے بنا دیا جائے گا۔ اب ایسا ہو بھی چکا ہے۔
یورپی ارکان پارلیمان کی کشمیر آمد، تشہیری مہم تھی؟
02:36
بھات کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اس اعلان کے بعد کشمیر کے ممکنہ بدامنی کا شکار ہو جانے والے علاقوں میں کرفیو بھی لگا دیا گیا تھا۔ اس بھارتی اقدام کی پاکستان کی طرف سے شدید مذمت کی گئی تھی اور اسلام آباد حکومت نے اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ نئی دہلی کو اس کے کشمیر سے متعلق ان بہت متنازعہ اقدامات کی منسوخی پر مجبور کرے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی جموں و کشمیر کے ایک ایک حصے کو نہ صرف کنٹرول کرتے ہیں بلکہ یہ دونوں حریف ہمسایہ ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے طور پر یہ دعوے بھی کرتی ہیں کہ ساری کی ساری ریاست جموں و کشمیر ان کی ملکیت ہے۔ یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں ہی جموں کشمیر کی اس طرح کی آزادی کے مطالبات کی مخالفت بھی کرتے ہیں کہ کشمیر کے دونوں حصے متحد ہوں، متحدہ کشمیر خود مختار ہو اور اس پر کشمیریوں کی حکمرانی ہو۔
دونوں طرف 'آزاد کشمیر‘ کی تحریک
بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کے اس کے زیر انتظام حصے کی بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے کنٹرول لائن کے آر پار اس متنازعہ ریاست کے دونوں حصوں میں اس خطے کے اتحاد اور آزادی کی تحریک ماضی کے مقابلے میں کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ ماضی میں کشمیری قوم پسند عشروں تک جموں و کشمیر کے ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنائے جانے کے مطالبے بھی کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ان مطالبات کو پاکستان اور بھارت دونوں ہمیشہ ہی مسترد کرتے آئے ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے زیر انتظام اور سرکاری طور پر 'آزاد جموں و کشمیر‘ کہلانے والے حصے سے ایسے بڑے عوامی مظاہروں کی رپورٹیں بھی ملتی رہی ہیں، جن میں اس حصے کے دارالحکومت مظفر آباد میں گزشتہ ماہ پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئی تھیں، جب پولیس ایک ایسے احتجاجی مظاہرے کے شرکاء کو منتشر کرنے کی کوشش میں تھی، جو کشمیر کی آزادی کے حامی عوامی قومی اتحاد یا پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) کے کارکنوں کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔
’عمران خان جو بولا دل سے بولا‘
01:02
This browser does not support the video element.
جرمن اتحاد، ایک متاثر کن ماڈل؟
جموں و کشمیر کی بھارت اور پاکستان دونوں سے آزادی کے حامی سیاسی کارکنوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس تاریخی تحریک سے بہت متاثر ہیں، جس کے نتیجے میں سرد جنگ کے زمانے میں دیوار برلن کا انہدام ممکن ہوا تھا اور جو بالآخر مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی وجہ بنی تھی۔ دیوار برلن نو نومبر 1989ء کو گرائی گئی تھی اور اس کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد تین اکتوبر 1990ء کو دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آ گیا تھا۔
اس بارے میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے پاکستان کے زیرانتظام جموں و کشمیر کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ دیوار برلن کا گرایا جانا اور پھر جرمنی کا دوبارہ اتحاد صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزادی کی تمام تحریکوں کے لیے ایک شاندار اور قابل تقلید مثال ہے۔ جرمن اتحاد سے پہلے کی طرح، جموں و کشمیر بھی دو حصوں میں منقسم ہے اور دونوں طرف کے کشمیریوں کے درمیان لائن آف کنٹرول بھی تو ایک دیوار ہی ہے۔‘‘
توقیر گیلانی نے کہا، ''اگر جرمنی کے دونوں حصے ایک ہو سکتے ہیں تو کشمیر میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کو بھی عالمی طاقتوں نے زبردستی تقسیم کر دیا تھا۔ تب کہا یہ گیا تھا کہ جرمنی کی مشرقی اور مغربی حصوں میں یہ تقسیم نظریاتی اختلافات کے باعث ضروری ہو گئی تھی۔ ہمیں کشمیر میں بھی تو اسی طرح کے تجربے سے گزرنا پڑا۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
کشمیر اور جرمنی دونوں بالکل یکساں تو نہیں
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی جرمن ریاستوں اور آج کے منقسم کشمیر کی سیاسی حرکیات بالکل یکساں نہیں ہیں۔ تاہم کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی تحریک کے لیے جرمن اتحاد پھر بھی ایک مثالیہ اور عمل انگیز ثابت ہو سکتا ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن شفق محمد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''دیوار برلن کے انہدام کی تیسویں سالگرہ زیادہ دور نہیں، ہمیں اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ لوگ مشکلات اور تقسیم کے عمل پر غالب آ سکتے ہیں۔ جرمنی میں جو کچھ تیس برس قبل ہوا، کشمیری عوام کے لیے وہ بڑی تحریک کا باعث ہے۔ کشمیری ایک ایسی قوم ہیں، جس کو دو حصوں میں تقسسم کر کے طاقت کے زور پر ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔‘‘
کشمیر ’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘ ہے
06:28
This browser does not support the video element.
جرمن اتحاد کشمیریوں کے لیے پھر بھی باعث تحریک
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم غیر سرکاری تنظیم 'کشمیر کونسل ای یو‘ کے سربراہ علی رضا سید کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں آج بھی خاندان اسی طرح منقسم ہیں، جس طرح دوبارہ اتحاد سے قبل بہت سے جرمن خاندان مشرقی اور مغربی حصوں میں منقسم تھے۔
علی رضا سید نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''کشمیر کے ان دونوں حصوں میں رہنےو الے کشمیریوں کی ثقافت ایک ہے، زبان ایک ہے۔ اسی لیے مجھے یقین ہےکہ جرمن اتحاد کا عمل کشمیر اور کشمیریوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال کے طور پر بڑی تحریک کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ ایسی مثال ہے جو کشمیر پر پوری اترتی ہے۔‘‘
اسے سلسلے میں برطانیہ میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن شفق محمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر کشمیری پاکستان اور بھارت دونوں سے آزادی چاہتے ہیں، تو یہ ان کا حق ہے۔‘‘
دو مختلف منظر نامے
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قائم نارڈِک کشمیر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر طلعت بھٹ کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم ایک متحد، خود مختار اور سیکولر کشمیر کی حامی ہے۔ ان کی رائے میں جرمن اتحاد کے عمل کی کشمیر کے لیے سیاسی مثال کے طور پر اہمیت اس لیے محدود ہے کہ یہ نہ صرف دو مختلف منظر ناموں کی بات ہے بلکہ کشمیر کے معاملے میں عوامی خواہشات کئی طرح کی اور بڑی متنوع ہیں۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
طلعت بھٹ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''منقسم جموں و کشمیر کے اتحاد کے حق میں مارچ صرف پاکستان کے زیر انتظام جموں کمشیر میں ہی دیکھنے میں آ رہے ہیں،بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ایسی کوئی تحریک ابھی تک زور نہیں پکڑ سکی، زیادہ تر اس وجہ سے کہ نئی دہلی حکومت نے اپنے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد سے تمام سرکردہ کشمیری سیاستدانوں اور کارکنوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔‘‘
ایک ریاست کا دوسری میں ادغام
برسلز میں قائم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم کے ڈائریکٹر ریسرچ زیگفریڈ او وولف کہتے ہیں کہ جرمن اتحاد کے عمل میں ایک پوری خود مختار ریاست (سابقہ مشرقی جرمنی) ایک دوسری ریاست (سابقہ مغربی جرمنی) میں مکمل طور پر مدغم ہو گئی تھی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات اس سے تو بہت ہی مختلف تھی، جس پر آج کے کشمیری اپنی نظریں لگائے ہوئے ہیں۔ جرمن اتحاد کے ماڈل کا کشمیر پر اطلاق تو اس وقت ممکن ہو سکے گا جب پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر یہ چاہے کہ وہ نہ صرف بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ساتھ اپنا ادغام کر لے بلکہ بھارتی ریاست کے ساتھ بھی۔‘‘
برسلز میں قائم کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید کے مطابق، ''پانچ اگست کو کیے جانے والے نئی دہلی حکومت کے فیصلے کے بعد سے کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے کشمیری آج اتنے متحد ہو چکے ہیں، جتنے وہ پہلے کبھی نہیں تھے۔‘‘
شامل شمس (م م / ع ح)
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔