1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خود مختار، متحدہ کشمیر: کیا جرمن اتحاد ماڈل ثابت ہو سکتا ہے؟

4 نومبر 2019

پاکستان اور بھارت کے مابین منقسم کشمیر کے اتحاد اور خود مختاری کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا جرمن اتحاد کے عمل کا ایک ماڈل کے طور پر کشمیر پر اطلاق ممکن ہے؟

تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh

اس سال پانچ اگست کو نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے جموں کشمیر کے متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر نے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ اکتیس اکتوبر کو جموں و کشمیر کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے کو مزید دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کرکے دونوں کو بھارت کے نئی یونین علاقے بنا دیا جائے گا۔ اب ایسا ہو بھی چکا ہے۔

یورپی ارکان پارلیمان کی کشمیر آمد، تشہیری مہم تھی؟

02:36

This browser does not support the video element.

بھات کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اس اعلان کے بعد کشمیر کے ممکنہ بدامنی کا شکار ہو جانے والے علاقوں میں کرفیو بھی لگا دیا گیا تھا۔ اس بھارتی اقدام کی پاکستان کی طرف سے شدید مذمت کی گئی تھی اور اسلام آباد حکومت نے اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ نئی دہلی کو اس کے کشمیر سے متعلق ان بہت متنازعہ اقدامات کی منسوخی پر مجبور کرے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ہی جموں و کشمیر کے ایک ایک حصے کو نہ صرف کنٹرول کرتے ہیں بلکہ یہ دونوں حریف ہمسایہ ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے طور پر یہ دعوے بھی کرتی ہیں کہ ساری کی ساری ریاست جموں و کشمیر ان کی ملکیت ہے۔ یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں ہی جمو‌ں کشمیر کی اس طرح کی آزادی کے مطالبات کی مخالفت بھی کرتے ہیں کہ کشمیر کے دونوں حصے متحد ہوں، متحدہ کشمیر خود مختار ہو اور اس پر کشمیریوں کی حکمرانی ہو۔

دونوں طرف 'آزاد کشمیر‘ کی تحریک

بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کے اس کے زیر انتظام حصے کی بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے کنٹرول لائن کے آر پار اس متنازعہ ریاست کے دونوں حصوں میں اس خطے کے اتحاد اور آزادی کی تحریک ماضی کے مقابلے میں کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ ماضی میں کشمیری قوم پسند عشروں تک جموں و کشمیر کے ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنائے جانے کے مطالبے بھی کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ان مطالبات کو پاکستان اور بھارت دونوں ہمیشہ ہی مسترد کرتے آئے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں آزادی کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بلند ہوتی جار رہی ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Mughal

حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے زیر انتظام اور سرکاری طور پر 'آزاد جموں و کشمیر‘ کہلانے والے حصے سے ایسے بڑے عوامی مظاہروں کی رپورٹیں بھی ملتی رہی ہیں، جن میں اس حصے کے دارالحکومت مظفر آباد میں گزشتہ ماہ پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئی تھیں، جب پولیس ایک ایسے احتجاجی مظاہرے کے شرکاء کو منتشر کرنے کی کوشش میں تھی، جو کشمیر کی آزادی کے حامی عوامی قومی اتحاد یا پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) کے کارکنوں کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔

’عمران خان جو بولا دل سے بولا‘

01:02

This browser does not support the video element.

جرمن اتحاد، ایک متاثر کن ماڈل؟

جموں و کشمیر کی بھارت اور پاکستان دونوں سے آزادی کے حامی سیاسی کارکنوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس تاریخی تحریک سے بہت متاثر ہیں، جس کے نتیجے میں سرد جنگ کے زمانے میں دیوار برلن کا انہدام ممکن ہوا تھا اور جو بالآخر مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی وجہ بنی تھی۔ دیوار برلن نو نومبر 1989ء کو گرائی گئی تھی اور اس کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد تین اکتوبر 1990ء کو دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آ گیا تھا۔

اس بارے میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے پاکستان کے زیرانتظام جموں و کشمیر کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ دیوار برلن کا گرایا جانا اور پھر جرمنی کا دوبارہ اتحاد صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزادی کی تمام تحریکوں کے لیے ایک شاندار اور قابل تقلید مثال ہے۔ جرمن اتحاد سے پہلے کی طرح، جموں و کشمیر بھی دو حصوں میں منقسم ہے اور دونوں طرف کے کشمیریوں کے درمیان لائن آف کنٹرول بھی تو ایک دیوار ہی ہے۔‘‘

توقیر گیلانی نے کہا، ''اگر جرمنی کے دونوں حصے ایک ہو سکتے ہیں تو کشمیر میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کو بھی عالمی طاقتوں نے زبردستی تقسیم کر دیا تھا۔ تب کہا یہ گیا تھا کہ جرمنی کی مشرقی اور مغربی حصوں میں یہ تقسیم نظریاتی اختلافات کے باعث ضروری ہو گئی تھی۔ ہمیں کشمیر میں بھی تو اسی طرح کے تجربے سے گزرنا پڑا۔‘‘

کشمیر اور جرمنی دونوں بالکل یکساں تو نہیں

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی جرمن ریاستوں اور آج کے منقسم کشمیر کی سیاسی حرکیات بالکل یکساں نہیں ہیں۔ تاہم کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی تحریک کے لیے جرمن اتحاد پھر بھی ایک مثالیہ اور عمل انگیز ثابت ہو سکتا ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن شفق محمد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''دیوار برلن کے انہدام کی تیسویں سالگرہ زیادہ دور نہیں، ہمیں اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ لوگ مشکلات اور تقسیم کے عمل پر غالب آ سکتے ہیں۔ جرمنی میں جو کچھ تیس برس قبل ہوا، کشمیری عوام کے لیے وہ بڑی تحریک کا باعث ہے۔ کشمیری ایک ایسی قوم ہیں، جس کو دو حصوں میں تقسسم کر کے طاقت کے زور پر ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔‘‘

کشمیر ’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘ ہے

06:28

This browser does not support the video element.

جرمن اتحاد کشمیریوں کے لیے پھر بھی باعث تحریک

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم غیر سرکاری تنظیم 'کشمیر کونسل ای یو‘ کے سربراہ علی رضا سید کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں آج بھی خاندان اسی طرح منقسم ہیں، جس طرح دوبارہ اتحاد سے قبل بہت سے جرمن خاندان مشرقی اور مغربی حصوں میں منقسم تھے۔

علی رضا سید نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''کشمیر کے ان دونوں حصوں میں رہنےو الے کشمیریوں کی ثقافت ایک ہے، زبان ایک ہے۔ اسی لیے مجھے یقین ہےکہ جرمن اتحاد کا عمل کشمیر اور کشمیریوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال کے طور پر بڑی تحریک کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ ایسی مثال ہے جو کشمیر پر پوری اترتی ہے۔‘‘

اسے سلسلے میں برطانیہ میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن شفق محمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر کشمیری پاکستان اور بھارت دونوں سے آزادی چاہتے ہیں، تو یہ ان کا حق ہے۔‘‘

دو مختلف منظر نامے

سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قائم نارڈِک کشمیر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر طلعت بھٹ کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم ایک متحد، خود مختار اور سیکولر کشمیر کی حامی ہے۔ ان کی رائے میں جرمن اتحاد کے عمل کی کشمیر کے لیے سیاسی مثال کے طور پر اہمیت اس لیے محدود ہے کہ یہ نہ صرف دو مختلف منظر ناموں کی بات ہے بلکہ کشمیر کے معاملے میں عوامی خواہشات کئی طرح کی اور بڑی متنوع ہیں۔

طلعت بھٹ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''منقسم جموں و کشمیر کے اتحاد کے حق میں مارچ صرف پاکستان کے زیر انتظام جموں کمشیر میں ہی دیکھنے میں آ رہے ہیں،بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ایسی کوئی تحریک ابھی تک زور نہیں  پکڑ سکی، زیادہ تر اس وجہ سے کہ نئی دہلی حکومت نے اپنے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد سے تمام سرکردہ کشمیری سیاستدانوں اور کارکنوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔‘‘

ایک ریاست کا دوسری میں ادغام

برسلز میں قائم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم کے ڈائریکٹر ریسرچ زیگفریڈ او وولف کہتے ہیں کہ جرمن اتحاد کے عمل میں ایک پوری خود مختار ریاست (سابقہ مشرقی جرمنی) ایک دوسری ریاست (سابقہ مغربی جرمنی) میں مکمل طور پر مدغم ہو گئی تھی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات اس سے تو بہت ہی مختلف تھی، جس پر آج کے کشمیری اپنی نظریں لگائے ہوئے ہیں۔ جرمن اتحاد کے ماڈل کا کشمیر پر اطلاق تو اس وقت ممکن ہو سکے گا جب پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر یہ چاہے کہ وہ نہ صرف بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ساتھ اپنا ادغام کر لے بلکہ بھارتی ریاست کے ساتھ بھی۔‘‘

برسلز میں قائم کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید کے مطابق، ''پانچ اگست کو کیے جانے والے نئی دہلی حکومت کے فیصلے کے بعد سے کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے کشمیری آج اتنے متحد ہو چکے ہیں، جتنے وہ پہلے کبھی نہیں تھے۔‘‘

شامل شمس (م م / ع ح)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں