1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Austria's parliament legalizes assisted suicide

17 دسمبر 2021

آسٹریا کی پارلیمان نے سہل موت یا ناقابل علاج مریضوں کو مرنے میں مدد فراہم کرنے کے قانون کو منظور کر لیا ہے۔ تاہم اس کے لیے سخت  قواعد و ضوابط تجویز کیے گئے ہیں۔ سہل موت کے ہر کیس میں دو ڈاکٹروں سے مشاورت لازمی ہو گی۔

Symbolbild I Sterbehilfe
تصویر: Ute Grabowsky/photothek/picture alliance

آسٹریا کی پارلیمان کی طرف ناقابل علاج مریضوں کو ان کی رضامندی کے ساتھ خود کشی میں معاونت فراہم کرنے کا قانون آئندہ برس جنوری سے لاگو ہو جائے گا۔ قبل ازیں ایک عدالت نے حکم سناتے ہوئے کہا تھا کہ اس پریکٹس پر عائد پابندی دراصل بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔

اس سال کے آخر تک یہ پابندی ویسے بھی ختم ہو جانا تھی، جس کے نتیجے میں خدشہ تھا کہ کوئی ریگولیشن نہ ہونے کی صورت میں لوگ اس کا غلط استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

تاہم اب اس قانون کی منظوری سے ناقابل علاج اور انتہائی بیمار افراد اپنی رضامندی سے خودکشی کی درخواست کر سکیں گے، جس پر عمل درآمد کے لیے سخت ضوابط پر عمل کرنا لازمی ہو گا۔

سہل موت کن حالات میں ملے گی؟

خود کشی میں مدد کے ایکٹ کے تحت صرف ایسے افراد ہی سہل موت کی اپیل کر سکیں گے، جن کی عمر اٹھارہ برس سے زائد ہو گی اور وہ ناقابل علاج مہلک بیماری میں مبتلا ہوں گے۔

سہل موت کے ہر کیس میں دو ڈاکٹروں سے مشاورت لازمی ہو گی اور ان کی تجاویز کی روشنی میں حتمی فیصلہ سنایا جائے گا کہ آیا کسی بیمار کو خودکشی میں مدد فراہم کی جائے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر کا انتہائی بیمار مریضوں کی کیئر کا تجربہ لازمی ہو گا۔

یہ ڈاکٹرز اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ مریض کسی بیرونی یا نفسیاتی دباؤ کے تحت سہل موت کا تقاضہ تو نہیں کر رہا۔ اس کے لیے مریض کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ اگر مریض آزادانہ طور فیصلہ کرے گا تو ہی اسے خود کشی میں معاونت فراہم کی جا سکے گی۔

ناقابل علاج اور انتہائی بیمار مریضوں کو ان کی رضامندی سے موت کی نیند سلانے کے عمل کو ’خود کشی میں معاونت‘ یا euthanasia کہتے ہیںتصویر: Martin Mejia/AP/picture alliance

سہل موت کی درخواست کے بعد اس پریکٹس پر عمل درآمد کے لیے 12 ہفتوں تک انتظار کیا جائے گا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کہیں مریض نے کسی وقتی دباؤ یا بحران میں آ کر سہل موت کی درخواست تو نہیں کی۔

جب تمام قانونی تقاضے اور لوازمات پورے کر لیے جائیں گے تو مریض کو سہل موت کی خاطر فارمیسی سے جان لیوا دوا لینے سے قبل اپنی وصیت بھی تحریر کرنا ہو گی۔

سہل موت کا قانون کیوں منظور کیا گیا؟

سہل موت فراہم کرنے کا یہ قانون جمعرات 16 دسمبر کو ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے، جب آسٹریا کی آئینی عدالت کے حکم نامے میں کہا گیا کہ اس پریکٹس پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔

جرمنی اور فرانس میں بھی عدالتوں کی طرف سے سہل موت فراہم کرنے پر لگی پابندی ختم  کر دی گئی تھی تاہم ان دونوں ممالک میں اس پریکٹس کو نہ تو قانونی تحفظ دیا گیا ہے اور نہ ہی ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ یورپ میں بیلجیم، لکسمبرگ، اسپین اور نیدرلیںڈز میں بھی مریضوں کو  سہل مرگی میں معاونت فراہم کرنا اب قابل سزا جرم نہیں ہے۔ دریں اثنا سوئٹزرلینڈ میں ایسے افراد کو بھی یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے، جو اس یورپی ملک کے رہائشی نہیں ہیں۔ اس بات پر سوئس قوانین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے کہ دراصل اس طرح یہ ملک اپنے ہاں ’خودکشی کی سیاحت’ کو فروغ دے رہا ہے۔

ع ب، ا ب ا (خبر رساں ادارے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں