خود کش حملوں کی دھمکی، کینیا کارروائی بند کرے: الشباب
18 اکتوبر 2011گزشتہ دنوں کے دوران کینیا سے متعدد غیر ملکیوں کو اغوا کیا گیا، جن میں اسپین سے تعلق رکھنے والی دو خواتین امدادی کارکن بھی شامل ہیں۔ کینیا کے حکام کے مطابق الشباب ملیشیا ان واقعات میں ملوث ہے۔ ان واقعات کے بعد کینیا نے اس شدت پسند گروپ کے خلاف شدید کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ کینیا کی فوج نے صومالیہ میں داخل ہو کر ایک آپریشن کرتے ہوئے الشباب ملیشیا کو شدید نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس دوران الشباب نے اغوا کے واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ ساتھ ہی اس نے کہا کہ اگر اس کےخلاف یہ آپریشن بند نہ کیا گیا توکینیا شدید مزاحمت اور خودکش حملوں کے لیے تیار رہے۔ ساتھ ہی کینیا کے حکام نے بتایا ہے کہ اس آپریشن میں صومالی فوجی بھی ان کا ساتھ دے رہےہیں اور جنوبی صومالیہ میں ان کی مشترکہ پیش قدمی بھی جاری ہے۔
ایک عینی شاہد کے مطابق کینیا کے دستے قوقانی نامی گاؤں تک پہنچ چکے ہیں اور یہ علاقہ الشباب ملیشیا کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ کینیا کی فوج ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے پاس بھاری تعداد میں اسلحہ بھی موجود ہے۔ اس سے قبل صومالیہ میں 2006ء میں غیر ملکی فوجیں داخل ہوئی تھیں۔ اس وقت ایتھوپیا نے موغادیشو حکام کی رضامندی سے الشباب کے خلاف ہی کارروائی کی تھی، جو تقریباً دو سال تک جاری رہی تھی۔
الشباب کے ترجمان شیخ علی محمد نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کینیا میں امن ہے اور وہاں کاروبار پھل پھول رہا ہے، جبکہ صومالیہ مں افراتفری ہے۔ ’’اگر کینیا نے صومالی سرزمین پر جارحیت روکنے کی ہماری اپیل کو نظر انداز کیا تو ہم کینیا کے اقتصادی مرکز کو نشانہ بنائیں گے۔‘‘
گزشتہ دنوں کے ایک برطانوی اور ایک فرانسیسی خاتون کو کینیا کے ایک تفریحی مقام سے جبکہ پچھلے ہفتے جمعرات کے روز دو ہسپانوی امدادی کارکن خواتین کو مہاجرین کے ایک کیمپ سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ نیروبی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ صومالیہ میں ان کا یہ آپریشن کتنے روز تک جاری رہے گا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: شامل شمس