اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے کہا ہے کہ دنیا میں قریب ساڑھے بارہ کروڑ افراد کو خوراک کی فوری ضرورت ہے اور یہ افراد اس صورت حال کے سبب موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔
اشتہار
عالمی ادارے کے مطابق خطرہ ہے کہ ان افراد میں سے بڑی تعداد اس صورت حال میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے سربراہ ڈیوڈ بیاسلے نے جمعے کے روز سلامتی کونسل میں ایک ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ خوراک کی عدم دستیابی کے شکار ان افراد میں سے 32 ملین چار ممالک کے شہری ہیں، جن میں صومالیہ، یمن، جنوبی سوڈان اور نائجیریا شامل ہیں۔ ان ممالک میں گزشتہ برس صورت حال قحط کے قریب تھی۔
مزدوروں کا عالمی دن: پندرہ پاکستانی، پندرہ کہانیاں
پاکستان میں کروڑوں انسان ایسے ہیں، جنہیں پیٹ کی بھوک کے خلاف ہر روز ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ محرومی کی زندگی گزارنے والے یہ وہ انسان ہیں، جنہیں اس شکایت کا موقع بھی کم ہی ملتا ہے: ’ہیں تلخ بہت بندہٴ مزدور کے اوقات‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تیری دنیا کے یہ بندے کدھر جائیں؟
دھوپ میں سڑک پر اس تین پہیوں والی ریڑھی کو کھینچنے والے غلام مسیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوم مئی منانے کا فائدہ؟ ہم غریبوں کے مسائل تو حل نہیں ہوتے۔ نہ محرومی کم ہوئی اور نہ زندگی آسان۔ میں پینتیس برسوں سے یہی کرتا آ رہا ہوں۔ اب میرے بچے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ بس وقت کا پہیہ گھومتا جاتا ہے۔ ہم مزوری نہ کریں، تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
پسینے میں گم ہو جانے والے آنسو
مظفر گڑھ کا ساجد حسن آٹھ برسوں سے مال بردار گاڑیوں پر سامان رکھتا اور اتارتا ہے۔ پرائمری پاس ساجد کو والد نے اسکول سے اٹھا کر کام پر لگا دیا:’’میرے والد کے تین شادیوں سے بائیس بچے پیدا ہوئے۔ اب میرا والد فوت ہو چکا ہے اور گھر مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ مزدور کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہے۔ مالک کام کے پیسے یوں دیتا ہے، جیسے احسان کر رہا ہو۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے ساجد کے آنسو اس کے چہرے پر پسینے میں گم ہو گئے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
کام نہ ملنے کا مطلب فاقہ
فیاض علی آٹھویں پاس ہے، غربت نے اسکول چھڑوایا اور اب نتیجہ چار پانچ سو روز کی دیہاڑی ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شدید گرمی میں مشقت سے کبھی کبھی طبیعت خراب بھی ہو جاتی ہے:’’جس شام پکانے کو کچھ گھر نہ لے جا سکوں، اس شام ہم فاقہ کرتے ہیں۔ دوسروں کے بچے تو اچھے اسکولوں میں جاتے ہیں اور ہمارے جیسے سڑکوں پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس نا انصافی کا ذمے دار میں خود تو نہیں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ہاتھوں کے چھالے اور ورم
پروین اختر پچھلے تیس سال سے مختلف لوگوں کے گھروں میں کام کر کے روزانہ دو تین سو روپے کما لیتی ہے اور کبھی ساتھ میں کھانا بھی مل جاتا ہے۔ پروین نے بتایا کہ اس کا شوہر نشے کا عادی ہے اور آئے دن مار پیٹ کرتا ہے۔ اس کی چار بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، دو ابھی باقی ہیں۔ پروین نے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھاتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس ملک میں غریب کو یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ وہ زندہ ہے تو کیسے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
دوسرے شہر میں مزدوری
محمد جمیل ضلع مظفر گڑھ سے راولپنڈی اسلام آباد اس لیے آیا کہ اپنے قصبے میں اسے مزدوری بھی نہیں ملتی تھی۔ ہر موسم میں مزدوری کا کام کرنے والا جمیل آٹھ تا دس ہزار روپے ماہانہ تک کما لیتا ہے۔ اس کے تمام آٹھ بہن بھائی شادی شدہ ہیں اور اس کے اپنے بھی دو بچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، ’’افسوس اس بات کا ہے کہ والدین غریب تھے اور میں کم عمری میں محنت مزدوری پر مجبور ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں مالی کا کام
اللہ نور نامی یہ شہری چالیس سال پہلے بنوں سے مزدوری کے لیے اسلام آباد آیا تھا۔ اسے ایسا اپنے والد کے انتقال کے باعث کرنا پڑا۔ پشاور موڑ کے قریب پانچ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر رہنے والا اللہ نور عام لوگوں کے گھروں میں باغیچوں اور کیاریوں کی دیکھ بھال کر کے ہر ماہ دس بارہ ہزار روپے کما لیتا ہے، جس کا ایک حصہ اسے ہر ماہ اپنے آبائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیجنا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بوٹ پالش سے بچوں کی تعلیم
پنڈی بھٹیاں کےعاشق علی کے باپ دادا بھی موچی تھے اور اب راولپنڈی میں مقیم عاشق اسلام آباد میں ایک درخت کے نیچے پوٹ پالش اور جوتے مرمت کرتا ہے:’’میں روزانہ تین چار سو روپے کما لیتا ہوں۔ ہے۔ اپنے پانچوں بچوں کو کسی نہ کسی طرح تعلیم بھی دلوا رہا ہوں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی اچھی نوکری کر سکیں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ میری بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں جا کر کام نہ کرے تو ہمارا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کوڑے میں سے کاغذ، گتے کے ذریعے رزق
گل بی بی سارا دن پرانا کاغذ اور کوڑے میں سے ایسی چیزیں ڈھونڈتی ہے، جنہیں بیچ کر وہ اپنی زندگی کی گاڑی چلا سکے۔ اس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔ اس کے نو بچے ہیں اور بیمار شوہر بوڑھا ہو چکا ہے۔ وہ روز چھ سات سو روپے تک کما لیتی ہے:’’میری ساری عمر سڑکوں پر کوڑا چنتے اور مزدوری کرتے گزری ہے۔ اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانا ہمارے جیسوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام صرف پیسوں والے کر سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
نوکری نہ ملی تو سٹال لگا لیا
ایف اے پاس نوجوان فیاض حسین آٹھ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ مسلسل بے روزگاری کے بعد اس نے اپنے فلیٹ ہی کے سامنے ایک دیوار کے ساتھ ایک سٹال لگا لیا۔ ’’میں روزانہ ٹافیاں، گولیاں، بسکٹ بیچ کر تین سے پانچ سو روپے تک کما لیتا ہوں لیکن مہنگائی اتنی ہے کہ یہ کمائی دال روٹی کے لیے بھی مشکل ہی سے کافی ہوتی ہے۔ میں ابھی تک اپنے گھر والوں کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر تیرہ سال، کام کا تجربہ چار سال
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ اعجازالحق پچھلے چار سال سے ایک پرائیویٹ اسکول اور چند گھروں میں صفائی کا کام کرتا ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں، جو سب اس سے چھوٹے ہیں۔ اعجاز کو خود بھی پڑھائی کا بڑا شوق ہے اور اسے یونیفارم پہن کر اسکول جاتے بچے اچھے لگتے ہیں۔ ’’میرے والدین کہتے ہیں کہ تم کام نہیں چھوڑ سکتے۔ مزدوری نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
سڑک کے کنارے حجام
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے اور ایک درخت کے نیچے حجام کے طور پر اپنی چلتی پھرتی دکان چلانے والے ناصر کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ اس کا پورا خاندان راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار میں رہتا ہے۔ ناصر نے بتایا کہ وہ روزانہ پانچ چھ سو روپے تک کما لیتا ہے۔ ’’میرا خواب ہے کہ میری اپنی ہیئر ڈریسر کی ایک بڑی سی دکان ہو۔ اس کے لیے لاکھوں روپے ہونے چاہیئں۔ غریبوں کے تو خواب بھی ادھورے ہی رہ جاتے پیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل پاس ویٹر
مانسہرہ سے پاکستانی دارالحکومت میں آنے والا چوبیس سالہ اجمل پچھلے آٹھ سال سے ایک ریستوران پر ویٹر کا کام کرتا ہے۔ اس کی ماہانہ تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے اور آجر کی طرف سے رہائش اور کھانا پینا بھی مفت ہے۔ وہ اپنے ساری کمائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیج دیتا ہے۔ ’’مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مجھے اپنی پڑھائی نامکمل ہی چھوڑ دینا پڑی۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
آٹھ بچوں کی بیوہ ماں
پشاور سے آنے والی زریں گل آٹھ بچوں کی ماں ہے اور بیوہ ہے۔ وہ سات سال سے اسلام آباد کے علاقے جی الیون میں رہتی ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں اور پانچ بیٹیاں۔ بیٹے بھی مزدوری کرتے ہیں۔ کوئی کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے، کوئی ردی بیچتا ہے۔ زریں گل نے شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’سارے دن کی محنت کے بعد بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ لوگ آتے ہیں، تصویریں بناتے ہیں۔ کوئی ہماری مجبوریاں نہیں سمجھتا۔ غربت تو تماشہ ہے امیروں کے لیے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
باجوڑ کا قلفی فروش
احمد خان کا تعلق باجوڑ کے قبائلی علاقے سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں اپنے ایک رشتے دار کے پاس رہتا ہے۔ وہ چھ سال سے قلفیاں بیچ رہا ہے۔ پرائمری پاس احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے علاقے میں غربت بہت زیادہ ہے اور کام کاج کوئی نہیں۔ اسی لیے ہم محنت مزدوری کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ میرے کچھ دوست اسلام آباد آ رہے تھے تو میں بھی ساتھ آ گیا۔ اب میں باقاعدگی سے پیسے گھر بھیجتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کام کیا لیکن تنخواہ نہیں ملی
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں ملازم زلیخا مسیح نے، جو کڑی دھوپ میں کچھ دیر سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی، بتایا کہ اس کی تنخواہ بارہ ہزار ہے، جو رو رو کر ملتی ہے:’’پچھلے دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ پہلے میں گھروں میں کام کر کے بھی کچھ پیسے کما لیتی تھی۔ اب بیمار رہتی ہوں تو مجھ سے زیادہ کام بھی نہیں ہوتا۔ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کھائیں کیا اور زندہ کیسے رہیں۔‘‘
عالمی ادارے کے مطابق خوراک کی کمی کی بنیادی وجہ مختلف ممالک میں جاری مسلح تنازعات ہیں۔ ’’بھوک اور تنازعات کے درمیان تعلق انتہائی مضبوط ہے اور یہ نہایت تخریبی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’تنازعات خوراک کی کمی کی وجہ بن رہے ہیں۔ فوڈ انِسکیورٹی عدم استحکام اور تشدد کو جنم دے سکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر خوراک کی کمی کے شکار 815 ملین افراد میں سے ساٹھ فیصد یہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں اگلا کھانا کہاں سے ملے گا۔
سلامتی کونسل سے خطاب میں اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے شعبے کے سربراہ مارک لوکاک نے بتایا کہ پیش گوئیوں کے برخلاف حالیہ کچھ دہائیوں میں قحط کے واقعات اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی اجناس کی پیداوار اور عالمی سطح پر لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ’نہایت خوش آئند پیش رفت‘ ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ قحط کے باقی ماندہ خطرات اور بھوک سے متاثرہ علاقوں والے ممالک اب کم ہیں اور زیادہ تر یہ وہ ممالک ہیں، جب بڑے پیمانے پر مسلح تنازعات جاری ہیں۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
9 تصاویر1 | 9
لوکاک نے بتايا کہ جمعرات کے روز ورلڈ فوڈ پروگرام اور یورپی یونین کی جانب سے جاری کردہ ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فوڈ انسکیورٹی کی ایک بنیادی وجہ شدید موسمياتی حالات اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہیں۔
لوکاک نے مزيد کہا کہ گزشتہ برس یمن، شمال مشرقی نائجیریا اور جنوبی سوڈان میں قحط نہیں پھیلنے دیا گیا تھا، تاہم اب بھی یہ ممالک اگلے چھ ماہ تک قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایتھوپیا، صومایہ اور کانگو میں خوراک کی قلت تشویش ناک ہے۔