1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتجرمنی

خوراک کی قیمتیں کم کیسے کی جائیں؟

18 جنوری 2023

جرمنی میں افراط زر کی شرح بہت زیادہ حد تک پہنچ چکی ہے۔ نومبر 2021 اور نومبر 2022 کے درمیان کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں تقریبا 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

Symbobildbild Deutschland Lebensmittel Obst Gemüse Supermarkt Mehrwertsteuersenkung
تصویر: Wolfgang Maria Weber/imago images

گھرانوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے جرمن حکومت کچھ کھانوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کو کم کرنے پر بحث کر رہی ہے۔ جرمنی کے وزیر زراعت نے صحت بخش غذاؤں پر وی اے ٹی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بارہا زور دیا ہے۔

جرمن ماحولیاتی ایجنسی  اور فیڈریشن آف جرمن کنزیومر آرگنائزیشنز  (یو بی اے) نامی ایک ایڈووکیسی گروپ سبزیوں پر وی اے ٹی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جرمنی میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء پر ٹیکس سات فیصد کم ہی لگایا جاتا ہے۔ دیگر مصنوعات کے لیے وی اے ٹی کی شرح 19 فیصد ہے۔ صارفین کے تحفظ کے ادارے یو بی اے کے سربراہ ڈرک میسنر  کا کہنا ہے کہ پھلوں، سبزیوں، اناج کی مصنوعات اور سبزیوں کے تیل کے لیے وی اے ٹی سے استثنیٰ کا مطلب نجی گھرانوں کے لیے سالانہ تقریبا 4 ارب یورو  کی بچت ہو سکتی ہے۔

خوراک پر ٹیکس سے کمی کا فائدہ کس کو ہو گا؟

خوراک کی مصنوعات پر VAT کم کر دینے سے البتہ ہر کسی کو یکساں طور پر فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کم آمدنی والے گھرانے امیر گھرانوں کے مقابلے میں اپنی آمدنی کا نسبتا بڑا حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ کھانے پر اس ٹیکس کٹوتی کے نتیجے میں زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔

جرمن معیشت: افراط زر، یوکرینی جنگ کے باوجود شرح نمو دو فیصد

جرمنی، افراط زر کی شرح میں کمی ہونے لگی

ہانس بوکلر فاؤنڈیشن  سے وابستہ سباستیان ڈولین کے مطابق ٹیکس میں کمی کے نتیجے میں زیادہ کمانے والے افراد بھی کھانے کے لیے کم ادائیگی کریں گے۔ اس ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ فرانسیسی پنیر 5.99 یورو فی 100 گرام پر تقریبا 40 سینٹ سستا ہوگا، جبکہ گروسری اسٹور میں پیک شدہ گوڈا پنیر جس کی قیمت 60 سینٹ فی 100 گرام ہے، صرف 4 سینٹ سستا ہوگا۔ یعنی آسان الفاط میں کہا جائے تو ٹیکس میں کمی سے زیادہ آمدنی والے لوگ زیادہ بچت کر  سکیں گے۔

مہنگائی سے نمٹنے کے ليے لوگوں کی مالی مدد، صحيح يا غلط؟

03:09

This browser does not support the video element.

جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ (ڈی آئی ڈبلیو) کے اسٹیفان باخ کا کہنا ہے کہ امیر گھرانے کم آمدنی والے گھرانوں کے مقابلے میں کھانے پر دوگنا زیادہ خرچ کرتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زیادہ مہنگے اور اعلیٰ معیار کے کھانوں  کا استعمال کرتے ہیں۔

فیصلہ متوقع ہے

مالی ریلیف فراہم کرنے کے علاوہ، کھانے پینے کی کچھ اشیاء کی کم قیمتوں کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو زیادہ گوشت کھانے سے دور جبکہ سبزیوں کی طرف مائل کیا جائے۔

 تحقیقی ادارے VZBV سے منسلک عین مارکورڈٹ کہتی ہیں کہ وی اے ٹی میں کمی سے بالخصوص گوشت سمیت جانوروں پر مبنی کھانوں کے مقابلے میں پھلوں اور سبزیوں والی خوراک سستی ہو گی ، جس کی و جہ سے صحت بخش اور پائیدار غذائی اجناس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

جرمن فارمرز ایسوسی ایشن (ڈی بی وی) کے سربراہ یوآخم روکوید کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں ٹیکس یا قیمتوں میں کمی نامیاتی خوراک کی فروخت میں بھی مدد دے سکتی ہیں، جب ہیلتھ فوڈ اسٹورز اور اعلیٰ معیار کی نامیاتی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے والی دکانیں افراط ذر اور مہنگائی کی وجہ سے اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

قیمتیں کیا واقعی کم ہو جائیں گی؟

وی اے ٹی میں کمی کا فائدہ صارفین کو ہونا ضروری ہے، اس مقصد کے لیے کمپنیوں کو بھی کوشش کرنا ہو گی۔ ڈی آئی ڈبلیو کے ریسرچ ایسوسی ایٹ اسٹیفان باخ کہتے ہیں کہ "اصولی طور پر ہمارے پاس جرمن فوڈ ریٹیل سیکٹر میں نسبتا مضبوط مسابقتی دباؤ ہے، لہذا یہ توقع کرنا مناسب ہے کہ کم از کم طویل مدت میں، وی اے ٹی میں کمی کا فائدہ نجی گھرانوں کو ہو گا"۔

افراط زر، توانائی اور دیگر اخراجات کے پیش نظر البتہ  باخ کو شک ہے کہ وی اے ٹی میں کسی قسم کی کٹوتی کی صورت میں کمپنیاں صارفین کو مالی فائدہ پہنچانے کے لیے تیار ہو جائیں گی۔ ان کے بقول امکان ہے کہ ٹیکس کتوتی کی صورت میں یہ کمپنیاں اپنا منافع زیادہ کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔

2020 میں وی اے ٹی میں عارضی کٹوتی پر ایک نظر ڈالیں، جب  وی اے ٹی کی شرح کو 19 فیصد سے کم کرکے 16 فیصد کردیا گیا تھا، تب چھ ماہ کے دوران  کم شرح (reduced rate)   7 فیصد سے کم ہو کر  5 فیصد ہو گئی تھی، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وی اے ٹی تبدیلیوں پر  کمپنیاں کس طرح رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔

آئندہ برس عالمی معیشت کو کن پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا رہے گا؟

جرمنی میں چھوٹے فیملی فارموں کی کمر توڑتی افراط زر

جرمن وفاقی بینک کے ایک مطالعے کے مطابق، تب ٹیکس کٹوتی کے 60 فیصد کا فائدہ صارفین کو پہنچا تھا، تب خوراک کے شعبے میں 70 سے 80 فیصد  رعایات دی گئی تھیں۔

تاہم اُس وقت صورتحال مختلف تھی، تب وی اے ٹی میں کٹوتی کا اطلاق صرف کھانے پینے کی اشیاء پر ہی نہیں ہوا تھا جبکہ افراط زر کی شرح بھی وہ نہیں تھی ، جو اب ہے۔ تب کمپنیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ ٹیکس ریلیف عارضی ہے۔

ڈی آئی ڈبلیو کے ماہر باخ کا کہنا ہے کہ وی اے ٹی میں کٹوتی کے اثرات کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نسبتا کم اعداد و شمار دستیاب ہیں کیونکہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس ابھی تک اتنا طویل عرصے تک نہیں رہا ہے، اور ماضی میں جب یہ تبدیل ہوا ہے تو اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی کیا گیا ہے۔

ہینک بھومے (ع ب، ع ت)

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔

جرمنی میں بڑھتی مہنگائی غریب عوام کے لیے تشویش ناک

02:37

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں