1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خونریز لڑائی کے بعد چمن کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ تا‌حال بند

26 فروری 2022

پاکستانی اور افغان فورسز کے مابین خونریز جھڑپوں کے دو روز بعد پاکستانی صوبے بلوچستان میں چمن کی کلیدی اہمیت کی حامل سرحدی گزرگاہ آج ہفتہ چھبیس فروری کے روز بھی بند رہی۔ ان جھڑپوں میں کم از کم تین افراد مارے گئے تھے۔

چمن کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ اطراف کی فورسز کے مابین خونریز جھڑپوں کے بعد سے تمام مسافروں اور ہر قسم کی تجارت کے لیے بند ہےتصویر: AP Photo/picture alliance

افغان سرحد کے قریب واقع پاکستانی شہر چمن سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ افغان سرزمین سے مسلح عسکریت پسند گروپ پاکستان پر حملوں کے منصوبے بناتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔

طالبان حکومت نے افغان پولیس کے لیے رہنما ضابطے جاری کر دیے

دوسری طرف افغان طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وہ افغان سرزمین پر پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کے جنگجوؤں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ لیکن افغان طالبان دونوں ممالک کے مابین نوآبادیاتی دور میں کھینچی گئی اور ڈیورنڈ لائن کہلانے والی لکیر کے ساتھ ساتھ اس سرحدی باڑ کی تعمیر کے بہرحال خلاف ہیں، جو پاکستانی فوج افغانستان سے عسکریت پسندوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کے لیے لگا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد تقریباﹰ 2700 کلومیٹر (1600 میل) طویل ہے۔

بھارتی گندم کے  ٹرک  براستہ پاکستان افغانستان روانہ

چمن بارڈر کراسنگ کی بندش کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں مسافر وہاں پھنس کر رہ گئے ہیںتصویر: Jafar Khan/AP Photo/picture alliance

دونوں ممالک کا سرحدی جھڑپ کے لیے الزام ایک دوسرے پر

پاکستان اور افغانستان کے مابین چمن اسپن بولداک کی سرحدی گزرگاہ پر جمعرات چوبیس فروری کے روز جو خونریز جھڑپ ہوئی، اس کا الزام دونوں ہی ممالک کی طرف سے ایک دوسرے پر لگایا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ایک اعلیٰ پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ سرحد فی الحال تمام مسافروں اور ہر قسم کی تجارت کے لیے بند ہے۔‘‘

بدحال افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات مسلسل بڑھتے ہوئے

اس بارڈر کراسنگ کی بندش کی وجہ سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں افراد وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ پاکستانی علاقے میں اس گزرگاہ کے دوبارہ کھلنے اور افغانستان میں داخلے کے منتظر مسافروں کی تعداد سینکڑوں میں بتائی گئی ہے۔

روایتی طور پر اس سرحدی گزرگاہ کو روزانہ ہزاروں افراد استعمال کرتے ہیں، جن میں تاجروں کے علاوہ اپنے علاج کے لیے پاکستان جانے والے افغان شہری اور دونوں طرف اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے خواہش مند افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔

طالبان کی واپسی نے افغان خواتین کی زندگی کیسے بدل کر رکھ دی؟

طالبان سے مذاکرات کے لیے قبائلی عمائدین کے وفد کی تشکیل

ایک پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سرحدی جھڑپ کے بعد افغان طالبان سے بات چیت کے لیے مقامی قبائلی عمائدین اور مذہبی رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد تشکیل دے دیا گیا ہے۔

افغانستان میں انسانوں کی اسمگلنگ ایک منافع بخش کاروبار

ایک افغان اہلکار نے اس وفد کی طرف سے اب تک کی جانے والی بات چیت کو بے نتیجہ قرار دیا ہے۔

افغان صوبے قندھار کے گورنر کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا، ''اب وہ دوبارہ بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، تو یہ معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر زیر بحث لایا جائے گا۔‘‘

م م / ع ح (اے ایف پی، اے پی)

طالبان کے افغانستان میں روٹی بھی ملے گی کیا؟

02:13

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں