خون عطیہ لینے سے انکار: ریڈکراس کے خلاف مقدمہ
6 جولائی 2010اس مقدمے کو عوامی جمہوریہ چین میں اپنی نوعیت کا اولین مقدمہ قرار دیا جا رہا ہے اور اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایت کرنے والا یہ شہری دراصل ایک ایسا صحافی ہے، جو اپنی شناخت صرف اپنے قلمی نام وانگ ژی ژینگ سے کرواتا ہے۔
بیجنگ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ صحت عامہ سے متعلقہ ملکی قوانین، جن پر عملدرآمد چین میں خون کی منتقلی کے قومی ادارے کے لئے بھی لازمی ہے، اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ایسا شہری اپنے خون کا عطیہ دے جو ہم جنس پرست ہو یا جس کے بیک وقت ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ جنسی رابطے ہوں۔
وانگ ژی ژینگ کے خون کا عطیہ لینے سے انکار کی وجہ بھی یہی تھی۔ لیکن اس پر اس چینی صحافی نے بیجنگ میں ریڈ کراس کی تنظیم کے خلاف یہ کہہ کر مقدمہ دائر کر دیا کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ ژی ژینگ کی اپیل ابھی تک زیر سماعت ہے اور اس بارے میں عدالتی فیصلہ بھی جلد ہی متوقع ہے۔
اس چینی ہم جنس پرست شہری نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ریڈ کراس کی تنظیم کو تمام ہم جنس پرستوں سے معافی مانگنی چاہئے اور ان کی طرف سے خون کے عطیات کی پیشکشیں بھی قبول کی جانی چاہیئں۔ وانگ کے وکیل کا کہنا ہے: ’’اگر اس مقدمے کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو جاتا ہے تو یہ ہم جنس پرست چینی شہریوں کی بہت بڑی جیت ہوگی کیونکہ اپنی نوعیت کے ایسے پہلے عدالتی فیصلے سے چین کے ایسے شہریوں کو ایک طرح سے تحفظ مل جائے گا۔‘‘
چینی معاشرے میں ہم جنس پرست افراد سے متعلق سماجی رویے تعصب سے پاک نہیں ہیں۔ وہاں ایسے شہریوں کو اپنا ایک سماجی میلہ منعقد کرنے کی اولین اجازت گزشتہ برس جولائی میں دی گئی تھی۔ پچھلے سال دسمبر میں جنوب مغربی صوبے یون آن کے شہر ڈالی میں ایک ایسیGay Bar بھی کھل گئی تھی، جس کی حکومت کی طرف سے باقاعدہ حمایت بھی کی گئی تھی۔
حکومتی سطح پر اس بالواسطہ جزوی سرپرستی کے باوجود اس سال جنوری میں پولیس نے ملک میں Mr. Gay China نامی ایک مجوزہ نمائش پر پابندی لگا کر اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔ یہ فیصلہ کئی روز تک ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا موضوع بنا رہا تھا۔ قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں چینی حکومت نے تو عوام کو خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہم جنس پرست افراد ایڈز کے وائرس کی صحت مند شہریوں میں تیز رفتار منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق چین میں ہم جنس پرست مردوں اورعورتوں کی تعداد قریب 30 ملین ہے، جو ملک کی مجموعی آبادی کا 2.3 فیصد بنتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں ہم جنس پرست شہریوں کی اصل تعداد ممکنہ طور پر عمومی اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے چینی باشندوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جو ہیں تو ہم جنس پرست مگر سماجی تعصب کے خوف سے اپنے جنسی رجحانات کا کھل کا اظہار نہیں کرتے۔
چین میں ہم جنس پرستی کو 2001ء تک بالعموم ایک ’دماغی مرض‘ کا نام دیا جاتا تھا اور وہاں ایسے افراد کو آج بھی سماجی اور خاندانی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن آج کے چین میں چند برس پہلے کے مقابلے میں جم جنس پرستی کو قبول کرنے کے رجحان میں بتدریج اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
رپورٹ: سائرہ حسن شیخ
ادارت: مقبول ملک