فلسطینی لڑکے کی ویڈیو: آن لائن تصویری جنگ میں شدت
16 اکتوبر 2015مبینہ طور پر دو اسرائیلیوں پر چُھری کا وار کرنے والے ایک 13 سالہ فلسطینی لڑکے کی حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والی ویڈیو جس میں وہ خوُن میں لت پت زمین پر پڑا نظر آ رہا ہے اور اُس کے نزدیک کھڑا ایک شخص اُس پر چیخ رہا ہے کہ اُسے مر جانا چاہیے، اسرائیلی حکومت اور فلسطینیوں کے مابین جاری جنگ میں جلتی پر تیل کا کام انجام دے رہی ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی اس ویڈیو کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے بھی سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر کی بھر مار نظر آ رہی ہے جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ فلسطینی نوجوان ’احمد مناصرا‘ ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ دوسری جانب فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ احمد مناصرا اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چُکا ہے۔
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی طرف سے بہت تیز رفتاری سے اپ لوڈ ہونے والا میڈیا مواد کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں ایک دوسرے پر الزام اور جوابی الزام کو زیادہ سے زیادہ رائے عامہ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بڑھنے والی کشیدگی کے تناظر میں زخمی فلسطینی لڑکے کی ویڈیو اب تک کی سب سے زیادہ متنازعہ ویڈیو ضرور ثابت ہوئی ہے۔
اس واقعہ کے بعد بیت اللحم اور یروشلم کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے مابین مسلح جھڑپوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان جھڑپوں کے دوران مسلح اسرائیلی فورسز اسلحے کا آزادانہ استعمال کر رہی ہیں جبکہ فلسطینی اس کا جواب پتھراؤ سے دیتے ہیں مزید یہ کہ اسرائیلی آباد کار بھی ان جھڑپوں میں شریک ہو رہے ہیں۔
دونوں طرف سے ویڈیو کا سہارا لے کر اپنے مقاصد کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
فلسطینیوں کے لیے نوجوان فلسطینی ’احمد مناصرا‘ کی ویڈیو اسرائیلی فورسز کے بہیمانہ رویے اور سفاکی کا ثبوت ہے جبکہ بہت سے اسرائیلی اس ویڈیو کو فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کو لاحق خطرات کا مظہر قراردے رہے ہیں۔
ایک یہودی ایجنسی کے ترجمان عاوی مائیر نے ٹوئیٹ میں تحریر کیا ہے، ’’اگر آپ یہ جانے بغیر کہ اس فلسطینی لڑکے نے دو اسرائیلیوں پر قاتلانہ حملہ کیا تھا، اُس کی زخمی حالت کی تصویر پوسٹ کریں گے تو آپ ایک نہایت ناگوار، خوفناک انسان ہوں گے‘‘۔
فلسطینی لڑکے کی زخمی حالت والی نہایت خوفناک ویڈیو پر فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنی ایک تقریر میں ایک اشتعال انگیز تبصرہ بھی کیا تھا جس پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بہت سخت رد عمل کا اظہار بھی کیا۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ 13 سالہ احمد اور اُس کے 15 سالہ کزن حسن نے مشرقی یروشلم کی ایک اسرائیلی بستی میں ایک اسرائیلی باشندے کو چاقو مارا تھا اور بعد ازاں ایک سائیکل سوار 13 سالہ یہودی لڑکے کو بھی شدید زخمی کیا تھا۔ پولیس کے مطابق حسن فرار ہونے کی کوشش کے دوران ایک گاڑی کی ٹکر لگنے سے ہلاک ہوا جبکہ احمد پر سکیورٹی فورسز نے اُس وقت گولی چلائی جب اُس نے اُن پر چاقو سے حملے کی کوشش کی۔
ویڈیو فوٹیج اسی منظر سے شروع ہوتا ہے جس میں احمد خون سے لت پت زمین پر گرا نظر آ رہا ہے اور ایک شخص چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اُسے مر جانا چاہیے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد فلسطینیوں نے کہا کہ احمد نے کوئی جرم نہیں کیا تھا جبکہ پولیس نے ایک نگرانی فوٹیج پوسٹ کی جس میں احمد نے ہاتھوں میں دو چھرے پکڑے ہوئے ہیں۔