غاروں میں رہنے والوں کی کہانیاں تو لوگوں نے سنی ہوں گی لیکن خیبر ایجنسی کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ آج بھی غاروں میں زندگياں بسر کر رہے ہيں۔ غاروں ميں گزر بسر اور خواتین کو درپیش مسائل کے بارے ميں فرزانہ علی کی تحریر۔
اشتہار
رحمہ گل خيبر ايجنسی کے ايک ايسے ہی غار کی رہائشی ہے۔ سر پر جست کا مٹکا اُٹھائے چھ ماہ کے حمل کے ساتھ پہاڑ کی چڑھائی چڑھتی رحمہ نے بتایا کہ عورت کی حالت کچھ بھی ہو لیکن پانی کی ضرورت پوری کرنا اس کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ فرزانہ علی نے سوال کيا کہ اس طرح تو ان کی اور بچے کی صحت متاثر ہو سکتی ہے، تو رحمہ نے جواب ديا، ’’ہاں۔ ہوسکتی نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں کس کو پروا ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ بچے تو ہمیشہ سے ہی پیدا ہوتے آئے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے جوآج کل کی لڑکیاں نخرے کرتی ہیں۔ تو بس پھر ہم بھی چپ ہو جاتے ہیں۔ کیا کریں؟‘‘
فرزانہ علی نے سوال کيا، ’’کیا کبھی اس طرح کے کیسز میں کسی عورت کا حمل گرا؟‘‘ تو جواب ميں رحمہ گل نے بتايا، ’’ہاں۔ کئی بار عورتوں کے ساتھ ایسا ہوا لیکن خدا کی رضا سمجھ کر بھلا دیا گیا۔‘‘ اس عورت نے مزيد بتايا کہ دن میں کتنی بار پانی لانا پڑتا ہے، اس کا دارومدار استعمال پر ہے۔ کھبی دو دفعہ، تو کبھی تین مرتبہ۔ رحمہ نے ايک پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتايا کہ وہاں ایک کنواں ہے، جہاں جا کر سب عورتیں کپڑے دھوتی ہیں۔
غار کے اندر کی زندگی کچھ اور ہی تھی۔ تیز روشنی سے ایک دم اندھیرا۔ ایک طرف رکھی دو چارپائیاں۔ ايک دیوار پر لٹکائے گئی اشیائے خرد و نوش کی تھیلیاں، چند پرانے برتن اور کیلیں لگا کر لٹکائے گئے کپڑے۔ زمین پر پڑی دو تین گھی کی خالی پلاسٹک کی بالٹیاں، روٹی کی جنگیر اور گیس کا چھوٹا سا سلینڈر۔ یہ تھی اس غار میں رہائش پذیر افراد کی کل کائنات۔ رحمہ نے دوسری چارپائی پر لیٹے کم عمر لڑکے سے اس کی طبیعت پوچھی۔ جواب میں اس نے بڑے دھيمے انداز سے ہاں میں جواب دیا۔
رحمہ ن۔ے بتايا کہ وہ بیمار ہے اور پشاور سے علاج جاری ہے کيونکہ وہاں تو کوئی ڈسپنسری تک نہیں۔ علاج کے ليے ان لوگوں کو جمرود یا پھر پشاور جانا پڑتا ہے۔ رحمہ نے مزيد بتايا کہ اس کا شوہر مزدور ہے۔ رحمہ کے لہجے سے بے بسی صاف نظر آرہی تھی۔ اس نے بتايا کہ اس کی يوميہ آمدن پانچ یا چھ سو روپے ہے۔ رحمہ نے بتايا، ’’علاج معالجے، کھانے پینے اور باقی تمام ضروريات کے ليے اللہ کچھ نہ کچھ وسیلہ بنا دیتا ہے۔ علاج کے لئے تو قرض لیا ہے۔رشتہ داروں سے۔‘‘
رحمہ نے اپنی داستان بيان کرتے ہوئے بتايا، ’’میری شادی تیرا برس کی عمر میں ہوئی اور پھر ہم یہاں آ گئے۔ صحیح یاد نہیں لیکن 17یا 18سال ہونے کو ہیں۔ وہاں طالبان آگئے تھے تو زندگی مشکل ہو گئی تھی۔ میرے شوہر نے کہا کہ جمرود چلتے ہیں کچھ روزگار بھی مل جائے گا۔ اور محفوظ بھی ہو جائیں گے۔ تو تب سے اب تک اسی غار میں رہ رہے ہیں۔‘‘
اسی دوران لگ بھگ تین سال کا ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور رحمہ کے کان میں کچھ کہنے لگا، جس پر رحمہ نے سامنے رکھی روٹی کی چنگیر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس میں دیکھو۔ بچے نے چنگیر کا ڈھکنا اُٹھایا اور اس میں سے باسی روٹی کا ٹکڑا نکال کر باہر کی طرف بھاگ گیا۔‘‘ رحمہ کے آٹھ بچے ہيں، جو سب کے سب اسی غار ميں پيدا ہوئے۔ اسے تو يہ معلوم ہی نہ تھا کہ بچے کی پيدائش کے عمل ميں طبی ماہرين کی مدد رکار ہوتی ہے۔ ’’میرے بچے اسی غار میں میرے شوہر کی پھوپھیوں نے پیدا کيے۔ یہاں اسی طرح محلے کی یا رشتہ دار عورتیں ہی یہ کام کرتی ہیں۔ آگے گاؤں میں جن کے پاس پیسے ہیں، وہ حاملہ عورتوں کو بچے کی پيدائش کے ليے جمرود یا پشاور لے جاتے ہیں۔‘‘ رحمہ نے بتايا کہ ماں اور بچے کھبی کھبی مر بھی جاتے ہیں۔ اُس نے انتہائی سنجیدہ بات کو ہنسی میں اُڑا دیا۔
ايک اور سوال کے جواب ميں رحمہ نے بتايا کہ خواتين رفع حاجت کے ليے صبح فجر سے پہلے پہاڑوں میں جايا کرتی ہيں۔
اپنی گفتگو سميٹتے ہوئے رحمہ نے کہا، ’’میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرا ایک گھر ہو، جہاں مہمانوں کے ليے بھی ایک کمرہ ہو، جہاں میں اور میرے بچے بغیر کسی خوف کے رہیں۔ نہ بارش کا غم ہو نہ زلزلے کا لیکن کیسے ممکن ہو گا يہ سب پانچ سو روپے يوميہ ميں، جو میرا شوہر اتنی مشکل سے کماتا ہے؟‘‘
اسلام آباد میں مارگلہ کی غاریں
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں قریب ڈھائی ہزار سال پرانی ایسی کئی غاریں ہیں، جنہیں اب کروڑوں روپے خرچ کر کے باقاعدہ طور پر بحال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شاہ اللہ دتہ غاریں
اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں شاہ اللہ دتہ نامی گاؤں میں یہ غاریں اللہ دتہ کی غاریں بھی کہلاتی ہیں، جو قریب دو ہزار چار سو سال پرانی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدیوں پہلے ان غاروں کا شاید کوئی اور نام تھا لیکن مغلیہ دور کے بعد اس جگہ کا نام ایک درویش شاہ اللہ دتہ سے موسوم ہو گیا تھا۔ شاہ اللہ دتہ مارگلہ کی پہاڑیوں واقع گاؤں ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے، جس کے رہائشی بہت مہمان نواز ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پتھریلی مٹی کی پہاڑیاں
شاہ اللہ دتہ گاؤں میں یہ غاریں دور سے دیکھنے پر صاف نظر نہیں آتیں کیونکہ زیادہ تر پتھریلی مٹی والی پہاڑیوں میں بنی ان غاروں کو صدیوں پرانے بہت سے درختوں نے قدرتی طور پر اپنے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سلسلے میں یہ غاریں خان پور کو جانے والی سڑک سے کچھ ہی دور واقع ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خستہ دہانے اور دیواریں
ان غاروں کے دہانوں اور ان کی بیرونی دیواروں کی حالت کافی خستہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہزاروں سال تک مختلف طرح کے شدید موسمی حالات نے ان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان غاروں کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تاریخی باقیات کو محفوظ کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دعوت اور پراسراریت
یہ غاریں دور سے دیکھنے والوں کو قریب آنے کی دعوت دیتی محسوس ہوتی ہیں اور قریب جائیں تو دیکھنے والوں پر تاریخ کی پراسراریت غالب آ جاتی ہے۔ سن اٹھارہ سو پچاس سے یہ غاریں ایک خاندان کے زیر انتظام ہیں۔ ان غاروں کی دیکھ بھال اس خاندان کے موجودہ سربراہ محمد اسماعیل کرتے ہیں، جو یہ کام اپنی نوجوانی کے سالوں سے کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سیاحوں کے لیے پرکشش
ان قدیم غاروں کو دیکھنے کے لیے چھٹیوں کے دوران بڑی تعداد میں مقامی سیاح قریب سات سو سال پرانے گاؤں شاہ اللہ دتہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لیے محمد اسماعیل نے وہاں ایک چھوٹا سا چائے خانہ بھی کھول رکھا ہے۔ ان غاروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی مہمانوں میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہوتی ہے، جس کی وجہ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک قدیم بدھ اسٹوپا کی باقیات بھی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمی کم کرنے کی کوشش
اس تصویر میں غاروں کے منتظم محمد اسماعیل ایک گرم دن کی سہ پہر پانی چھڑک کر زمین ٹھنڈی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قریب ہی ایک غار کے دہانے پر ایک رنگدار چادر بچھی ہے، جہاں یا تو محمد اسماعیل خود آرام کر لیتے ہیں یا وہاں آنے والے مہمان کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت ان غاروں کو محفوظ کرتے ہوئے انہیں بحال کیا جائے گا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کے بارے میں پرامید
محمد اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ماضی میں بھی ان غاروں کی بحالی کے منصوبے بنائے تھے لیکن عملی نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس مرتبہ لیکن وہ پرامید ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ان تاریخی غاروں کو بحال کرتے ہوئے انہیں سیاحوں کے لیے پرکشش بنا جائے گا، جس سے مقامی سطح پر ترقی میں بھی مدد ملے گی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
غار کا اندرونی منظر
اس تصویر میں شاہ اللہ دتہ کی غاروں میں سے ایک کا اندرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو ہزار سال سے زائد کے عرصے میں یہ جگہ شکست و ریخت کے کس عمل سے گزری ہے۔ کئی جگہوں پر بوسیدہ اور غیر محفوظ قدرتی ڈھانچوں کی وجہ سے ان غاروں میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بحالی اور صفائی کی ضرورت
ان غاروں میں سے چند ایک کی بیرونی دیواروں میں سوراخ بھی ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ان غاروں کو ممکنہ انہدام سے بچانا اور وہاں صفائی اور دیکھ بھال کے معیاری انتظامات بھی لازمی ہوں گے۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان غاروں کی بحالی کے لیے چار کروڑ روپے مالیت کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر اسی مالی سال کے دوران عمل شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
چشمے پر تالاب
محمد اسماعیل کے مطابق ماضی میں اس علاقے کا ایک نام گڑیالہ بھی تھا، جہاں کبھی تیرہ کنال پر پھیلا ہوا پھل دار درختوں والا ایک باغ تھا، جو ’بدھو کا باغ‘ کہلاتا تھا۔ یہ باغ سی ڈی اے نے 1983 میں اپنی ملکیت میں لیا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا تالاب غاروں کے قریب سے گزرنے والے ایک قدیم چشمے کی گزرگاہ پر بنایا گیا ہے۔ یہی چشمہ اور تالاب پورے گاؤں کو سیراب کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
منہ چڑاتا ہوا سنگ بنیاد
پوٹھوہار کے علاقے میں شاہ اللہ دتہ گاؤں ایک ایسے راستے پر واقع ہے، جسے صدیوں تک شاہی قافلے اور فوجی لشکر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ دو ہزار گیارہ میں سی ڈی اے نے ’سادھو باغ‘ کی بحالی کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا سنگ بنیاد اس ادارے کے ایک چیئرمین نے رکھا تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
جون کے مہینے میں کام کا آغاز
ان غاروں کی بحالی کے منصوبے کے منتظم عامر علی احمد کےبقول اس پراجیکٹ پر کام موجودہ مالی سال ختم ہونے سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ غاریں ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ انہیں بہت پہلے محفوظ کیا جانا چاہیے تھا۔ ماضی میں کئی منصوبے بنے لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔ اب ہم نے بڑی منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم ان غاروں کی بحالی کے ذریعے سیاحت کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘‘