1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خڑقمر واقعے کو ایک سال ہو گیا

26 مئی 2020

شمالی وزیرستان کے علاقے خڑقمر میں مظاہرین اور پاکستانی فوج کے درمیان ایک جھڑپ میں متعدد افراد ہلاک ہوئے گئے تھے۔ آج اس واقعے کو ٹھیک ایک برس ہو گیا۔

Pakistan | Ali Wazir | Mohsin Dawar | PTM
تصویر: Reuters/A. Soomro

26 مئی 2019 کو شمالی وزیرستان میں پیش آنے والے اس واقعے میں 13 افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ٹھیک ایک برس گزرنے کے باوجود کئی طرح کے سوالات آج بھی موجود ہیں۔

پی ٹی ایم آئینی جدو جہد جاری رکھے گی، منظور پشتین

اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی ایم میں ایک بار پھر کشیدگی

اس واقعے کے بعد ایک دو صفحاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس کی وجہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کا مظاہرین کو تشدد پر اکسانا تھی۔ دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ نے اس واقعے کی ذمہ داری سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین غیرمسلح تھے۔ ان دونوں نکتہ ہائے نگاہ کی تصدیق آزاد ذرائع سے نہیں ہو سکی۔

واقعے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ سے وابستہ دو اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ بعد میں انہیں ضمانت پر رہائی ملی تھی۔

اس واقعے کو ایک برس ہو جانے پر آج پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس واقعے سے جڑے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے۔

محسن داوڑ نے اس واقعے کی پہلی برسی پر اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں یومِ سیاہ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا، ''خڑقمر قتل عام میں میں نے اپنے کئی ساتھی کھوئے۔ اس واقعے کو ایک برس گزر چکا ہے۔ بے بسی کا احساس جو اس قتلِ عام کے وقت میں نے محسوس کیا تھا، اس گزرے ایک برس میں اس میں فقط اضافہ ہی ہوا ہے۔ انصاف کے ہمارے پرامن مطالبات، چاہے وہ سڑکوں پر تھے کہ پارلیمان میں، انہیں نظرانداز کیا گیا۔ بلکہ اس کے بدلے ہمیں عارف وزیر کی لاش دی گئی۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے رشتہ دار عارف وزیر کو چند روز قبل نامعلوم افراد نے ان کے گھر کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

معروف سماجی کارکن بشریٰ گوہر نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''خڑقمر واقعے کی کوئی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ ایک واقعہ جس میں پی ٹی ایم کے ایک درجن سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔‘‘

محسن داوڑ نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے لیے تحریر کردہ اپنے کالم میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ ایک پرامن تحریک ہے، جو مسلح کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پرامن تحریک کے جواب میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے طاقت کا استعمال ان کے حوصلوں کو مزید تقویت دے رہا ہے۔

ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں