1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبرپختونخوا میں ماربل کی کان میں حادثہ: 19 ہلاک

8 ستمبر 2020

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں ایک ماربل کی کان میں ہونے والے حادثے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 19 ہوچُکی ہے جبکہ منگل تک اس کان میں درجنوں مزدوروں کے پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں۔

Kaschmir - Rohstoffabbau in Rubienenmiene
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں یہ حادثہ پیر سات ستمبر کو پیش آیا جس میں امدادی کاموں میں سخت مشکلات پیش آئیں۔ خیبر پختونخواہ کے حکام کے مطابق ماربل کی کان میں ایک بہت بڑا بولڈر یا سفید ماربل کا ایک بہت بڑا ٹکڑا کان کے مزدوروں یا کان کنوں پر آن گرا۔  مقامی پولیس کے سربراہ طارق حبیب کے مطابق یہ اس چٹان نے کان کے داخلی حصے کو بلاک کر دیا۔ اس کے سبب کان کن کئی گھنٹے کان میں پھنسے رہے اور درجنوں اس بڑے پتھر کے  نیچے دبے رہے۔

ایک ریسیکو آفیسر بلال فیضی کے مطابق مرنے اور زخمی ہونے والے مزدوروں کو کئی گھنٹوں کے سخت امدادی آپریشن کے بعد کان سے نکالا جا سکا۔ خیبر پختونخواہ کے ضلع مہمند کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ افتخار احمد نے قبل ازیں بتایا تھا کہ بہت سے مزدور کان میں پھنسے ہوئے ہیں اس لیے ہلاکتوں میں اضافے کے امکانات قوی ہیں۔

ہر سال مانوں میں کوئی نا کوئی حادثہ پیش آتا ہے جس میں کا کنوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

ماربل کی کان میں یہ حادثہ خیبر پختونخوا کی تحصیل صافی کے علاقے زیارت میں پیش آیا۔ واقعے کے بعد گھنٹوں جاری رہنے والے امدادی کاموں کے بعد مرنے والوں اور زخمیوں کو کان سے باہر نکالا گیا اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ڈی پی او کے بقول ملبے سے 19 لاشیں اور 6 زخیموں کو نکالا گیا ہے۔ اس واقعے کی شدت کے سبب امدادی کاموں کے لیے پاک فوج، ایف سی اور پولیس اور ریسکیو کے اداروں کے امدادی کارکنوں کو تعینات کیا گیا۔   

پاکستان میں مختلف کانوں میں کام کرنے والے مزدورں کے لیے حفاظتی انتظامات انتہائی ناقص اور غیر محفوظ ہیں اس کے سبب کوئلہ، زمرد ماربل اور نمک کی کانوں میں کام کرنے والے کان کن یا مزدو قریب ہر سال کسی نا کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں اور متعدد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ک م / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں