خیبر ایجنسی: زعفران کے ذریعے منشیات کی پیداوار کے خلاف جنگ
دانش بابر، پشاور
23 نومبر 2017
پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں جہاں فوجی آپریشن کے بعد حالات معمول پر آرہے ہیں وہیں حکومتی اداروں کو درپیش کئی چیلنجز میں سے ایک پوست اور بھنگ کی کاشت کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہے۔
اشتہار
محکمہ زراعت خیبرایجنسی کے مطابق ستمبر سن 2016 میں خیبرایجنسی کے کاشت کاروں کو زعفران کی کاشت کی طرف راغب کرنے کے لیے ’میدان تیراہ‘ میں پانچ کنال رقبے پر زعفران کی کاشت کی گئی۔ اس منصوبے کے لیے تمام تر وسائل فاٹا سکریٹریٹ کی جانب سے مہیا کیے گئے۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے خیبر ایجنسی کے محکمہ زراعت سے وابستہ آفیسر فائق اقبال کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال آزمائشی طور پر وادی تیراہ میں قریب 15 لاکھ روپے کی لاگت سے زعفران کی فصل اگائی گئی۔ اس منصوبے کے بہترین نتائج سے نہ صرف حکام بلکہ کاشت کاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی۔ فائق اقبال کے مطابق،’’پولیٹیکل انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کی کاوشوں اور کاشت کاروں کی دلچسپی کی وجہ سے خیبر ایجنسی کے عوام کو پوست اور دوسری نشتہ آور فصلوں کا اچھا اور قیمتی متبادل زعفران کی صورت میں مل چکا ہے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب بھی اس فصل کے حوالے سے کاشت کاروں کی تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ اس سے بڑے پیمانے پر فائدہ حاصل کیا جاسکے۔
زعفران کی کاشت کچھ یورپی ممالک کے علاوہ افغانستان، ایران اور ہندوستان میں بھی کی جاتی ہے جب کہ پاکستان میں بھی (چترال اور شمالی علاقہ جات) کسی حد تک زعفران کی کشت کی جاتی ہے۔
فائق اقبال کا کہنا تھا کہ زعفران کی فصل دنیا کی مہنگے ترین فصلوں میں شمار کی جاتی ہے، اس کے لیے ٹھنڈی، پہاڑی، کم پانی اور ریتلی زمین موزوں ترین تصور کی جاتی ہے اور خیبرایجنسی کی وادی تیراہ میں یہ تمام چیزیں موجود ہیں۔
خیبر ایجنسی کے محکمہ زراعت سے وابستہ اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ''ایک تولہ زعفران کے قیمت مقا می مارکیٹ میں پانچ سے چھ ہزار تک ہے جب کہ بین الاقومی مارکیٹ میں اس کی قیمت پندرہ ہزار روپے تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فصل کو پوست اور بھنگ کے مقابلے میں ایک لحاظ سے اچھا کہا جا سکتاہے۔‘‘
وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے بیالیس سالہ کاشت کار نور الامین آفریدی کہتے ہیں کہ انہوں نے زرعی ماہرین کے اصرار پر رواں سال زعفران کاشت کی ہے۔ نور الامین کے بقول ان کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا اور وہ اس سے پہلے زعفران کے نام اور استعمال سے واقف تو تھے، تاہم وہ اس کی مارکیٹ میں قدر سے آگاہ نہ تھے۔ آفریدی کے مطابق، ’’محکمہ زراعت کے اہلکاروں نے نہ صرف زعفران کی کاشت کے حوالے سے ہماری رہنمائی کی بلکہ اس کے فوائد اور پوست کی کاشت کے نقصانات سے بھی ہمیں آگاہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ فصل اب ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔‘‘
نورالامین کہتے ہیں کہ کاشکار کمیٹی فاٹا میں زعفران کی کاشت کے حق میں اس لیے بھی ہے کیوں کہ یہ ایک نقد آور فصل ہے جس سے زمینداورں کی زندگی بدل سکتی ہے۔
ہیروئن کا بڑھتا ہوا استعمال اور پنجاب کی ’گمشدہ نسل‘
چیف ایگریکلچر آفیسر خیبر ایجنسی شمس الرحمن خٹک کہتے ہیں کہ خیبر ایجنسی کے میدانی علاقوں میں زعفران کی کامیاب کاشت ایک اچھا سنگ میل ہے۔ شمس الرحمٰن کے مطابق بیج مہنگا ہونے کی وجہ سے زعفران کی کاشت پر ابتدائی اخراجات قدرِے زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کنال رقبے میں 150 کلوگرام زعفران کے بیج استعمال ہوتے ہیں اور ایک کلوگرام کی قیمت دو ہزار سے چار ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ تاہم سازگار ماحول کی وجہ سے اس فصل سے کاشتکار پانچ سو فیصد تک منافع بھی کما سکتے ہیں۔
علاقے میں زعفران کی کاشت کے بارے میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ستمبر کے مہینے میں اس کے بلب نما بیبج کو کاشت کیا جاتا ہے جوکہ نومبر سے دسمبر تک تیار ہوجاتا ہے، جس کو خشک کرکے زعفران حاصل کیا جاتا ہے۔‘‘
شمس الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ خیبر ایجنسی کے لوگ تیزی کے ساتھ زعفران کے کاشت کی طرف راغب ہو رہے ہیں اور نشہ آور فصلیں بتدریج ختم ہورہی ہیں۔ تاہم بڑے پیمانے اور باقاعدگی سے اس کی کاشت شروع ہونے میں مزید تین سے پانچ سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
ماہر زراعت ساجد صدیقی زعفران کے مارکیٹ اور کاروبار کے بارے میں کہتے ہیں کہ عموماﹰ لوگ سمجھتے ہیں کہ زعفران کا استعمال صرف اشیاء خوردونوش یعنی کیک ، پیسٹری وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ تاہم صدیقی کے بقول طبی ادویات کی تیاری میں بھی زعفران کو بڑی حد تک استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں اگر ایک طرف کم ہی وقت میں (ایک سیزن) زعفران کے پودوں کے بیج یا بلب دگنے ہوجاتے ہیں تو دوسری جانب اس کے پھولوں کو بطور قہوہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ساجد صدیقی کا کہنا تھا،’’زعفران ایک قیمتی فصل ہے، ہمیں لوگوں کو اس طرف مائل کرنا ہوگا، ایسے اقدامات سے ہم نشہ آور فصلوں کی کاشت کی روک تھام بھی آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔‘‘
بلوچستان سے سالانہ اربوں روپے کی منشیات بیرون ملک اسمگل ہوتی ہے. فرنٹیئر کور ژوب ملیشیا کے اہلکاروں نے پاک افغان سرحد سے ملحقہ مسلم باغ اور قریبی علاقوں میں ایک آپریشن میں 380 ایکڑ پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کئی ٹن پوست کی خریداری
تیار شدہ پوست کٹائی کے بعد مخصوصی گوداموں میں ذخیرہ کی جاتی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ یہ پوست ٹنوں کے حساب سے خریدتے ہیں اور بعد میں اسے ہیروئن کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ مکران ڈویژن، تربت، مند، گوادر، چاغی اور برامچہ کےعلاقوں میں قائم فیکٹریوں میں دنیا کی اعلیٰ ترین ہیروئن تیار کی جاتی ہے، جو غیر قانونی راستوں سے بین الاقوامی مارکیٹ کو اسمگل کر دی جاتی ہے.
تصویر: DW
ایک منافع بخش کاروبار
زیرنظرتصویر ضلع لورالائی کے علاقے دکی کی ہے، جہاں اس آپریشن کے دوران 60 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تباہ کی گئی۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پوست کی کاشت لوگوں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے اس لیے سخت پا بندی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں پوست کاشت کرتی ہے۔
تصویر: DW
ٹریکٹروں کا استعمال
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہمراہ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران سینکڑوں ایکڑ زمیں پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی ہے ۔ اس کارروائی میں مقامی لوگوں نے بھی فورسز کی معاونت کی اور پوست تلف کرنے کے لیے ٹریکٹر بھی استعمال کئے گئے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
پوست کے نئے کھیت
لورالائی کے علاقے میختر میں پوست کی سب سے زیادہ فصل کاشت کی گئی تھی۔ یہاں 190 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی گئی۔ منشیات کے اسمگلروں نے اس بارپوست کی کاشت کے لیے یہاں ایسے کھیتوں کا انتخاب کیا تھا جہاں اس سے قبل پوست کاشت نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: DW
زیادہ فصلیں غیر مقامی افراد کی
حکام کے مطابق پوست کی کاشت کے خلاف ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں تلف کی گئی اکثر فصلیں غیر مقامی افراد کی ملکیت تھیں۔ پوست کاشت کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار ان مقدمات میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
دالبندین اور ملحقہ علاقے
سکیورٹی فورسز نے پوست کی کاشت تلف کرنے کے لیے ضلع چاغی، دالبندین اور ملحقہ علاقوں میں بھی کارروائی کی، جہاں اب تک 90 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔ یہ پوست مقامی آبادی سے کافی دورپہاڑوں کے دامن میں کاشت کی گئی تھی۔ اس کاروبار میں ملوث افراد ایک ایکڑ زمین پر پوست کاشت کرنے کا دو لاکھ روپے تک معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اسمگلروں نے یہ زمین پوست کی کاشت کے لیے لیز پر حاصل کی تھی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
ڈرگ مافیا ایک مدت سے سرگرم
پوست کی فصل کے خلاف جاری اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے دکی کے علاقے میں 65 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔ ڈرگ مافیا کے لوگ بڑے پیمانے پر یہاں ماضی میں بھی پوست کی کاشت کرتے رہے ہیں اور اس سے قبل بھی یہاں سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
تیار فصلوں کی بھی تلفی
بلوچستان کے پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اس کارروائی کے دوران پوست کی تازہ اگائی ہوئی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایسی فصلیں بھی تباہ کی گئیں جو تیار ہو چکی تھیں۔ حکام کے مطابق کٹائی کے بعد اسمگلر ان فصلوں سے حاصل ہونے والی پوست ہیروئن کی فیکٹریوں میں سپلائی کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
تصویر: DW
1999ء کا پاکستان پوست سے پاک قرار پایا تھا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی سطح پر انیس سو ننانوے میں پاکستان کو پوست سے پاک علاقہ قرار دے دیا گیا تھا لیکن اب پھر اس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجوہات ماہرین زیادہ آمدنی بتاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب اور منزکئی کے علاقے میں کارروائی کے دوران اسمگلروں کے دو ٹھکانے تباہ بھی کیے گئے اور بڑی مقدار میں برآمد کی گئی پختہ پوست بعد میں منزکئی کے ایک میدان میں نذر اتش کر دی گئی۔
تصویر: DW
پوست کی کاشت اور عسکریت پسندی
مکران ڈویژن میں ہیروئن کے بعض اسمگلرز منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کو بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے لیے اسلحہ اور سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے پوست کے خلاف کی جانے والی اس حالیہ کارروائی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کو ختم کیا جائے.
تصویر: DW
منشیات کی کاشت اور خرید و فروخت کرنے والے
پوست کی کاشت کےخلاف ہونے والی اس کارروائی کے دوران مختلف علاقوں سے 45 ایسے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو کہ پوست کی فصل کی کاشت اور اس کی خرید و فروخت میں ملوث تھے۔ ان افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اسمبلی میں پوست کی کاشت کے خلاف منظور کی گئی ایک متفقہ قرارداد میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں پوست کی فصلیں تلف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بلوچستان، ڈہائی لاکھ افراد منشیات کے عادی
بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ منشیات کےعادی افراد کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کل بلوچستان میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں اسّی ہزار افراد ہیروئن کےعادی ہیں۔