1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر ایجنسی میں فضائی کارروائی، چونتیس ہلاک

عاطف بلوچ18 مارچ 2015

پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں ملکی فضائیہ کی ایک کارروائی کے نتیجے میں سیکورٹٰی فورسز کے مطابق چونتیس جنگجو مارے گئے ہیں۔ تاہم مقامی ذرائع نے ان ہلاکتوں کی تعداد بیس بتائی ہے۔

تصویر: picture-alliance/Yu Ming Bj

خبررساں ادارے روئٹرز نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان سے ملحق پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے مختلف علاقوں میں یہ کارروائیاں بدھ کے روز کی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اہداف بنا کر کی گئی اس فضائی کارروائی میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ بیس افراد کے زخمی ہونے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔

ایک حکومتی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’جب دہشت گردوں کے خلاف یہ فضائی حملے شروع ہوئے تو مقامی آبادی اپنے گھروں اور دیہات کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے لگی۔‘‘ ایک اور اہلکار نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کے ایک اتحادی جنگجو گروہ لشکر اسلام سے ہے۔

قبائلی علاقہ جات میں فوج نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’خیبر ایجنسی کی تیراہ وادی میں اہداف بنا کر کی گئی اس فضائی کارروائی میں 34 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔‘‘ ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ جب یہ حملے کیے گئے تو غالبا طالبان کمانڈر مولانا فضل اللہ بھی اسی علاقے میں موجود تھا۔

طالبان کے ذرائع کے مطابق بدھ کو کی گئی اس کارروائی میں وہاں موجود ان کے بیس ساتھی مارے گئے ہیں۔ لشکر اسلام نامی شدت پسند تنظیم نے بھی بیس ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے قبل ہی مقامی آبادی وہاں سے فرار ہو گئی تھی۔

تیراہ وادی کے ایک رہائشی عبدالرشید نے بتایا، ’’میرے بڑے بھائی نے دیکھا کہ اس حملے کے بعد جنگجوؤں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں تیراہ وادی سے قریبی دیہات میں منتقل کرنا شروع کردیں۔‘‘ عبدالرشید کے بقول اس کا بھائی کچھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ اب بھی اپنے گاؤں میں موجود ہے تاکہ وہاں اپنے گھروں اور مویشیوؤں کا خیال رکھا جا سکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں