خیبر ون آپریشن میں ایک ہفتے کے دوران 60 سے زائد شدت پسند ہلاک
24 اکتوبر 2014آپریشن سے قبل پولیٹکل انتظامیہ نے غیر قانونی اسلحہ جات حکومت کے پاس جمع کرانے کا اعلان کیا تھا اس دوران سو سے زیادہ عسکریت پسند ہتھیار بھی ڈال چکے ہیں ۔اس آپریشن میں مزاحمت کے دوران سکیورٹی کے تین اہلکار جان بحق جبکہ بارہ زخمی ہوئے ہیں ۔ شدت پسندوں کی جانب سے مقامی آبادی کو گھر نہ چھوڑنے کے دھمکیوں کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کررہے ہیں خیبر ایجنسی اور پشاور کی سرحد پر نقل مکانی کرنیوالوں کی مدد کرنے کے لیے موجودغیرسرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ آٹھ دن میں چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے تاہم فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے مطابق اب تک 1560خاندانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں حکومتی عمل داری کمزور ہونے کی وجہ سے ایک علاقے میں آپریشن شروع ہوتے ہی شدت پسند دوسرے کا رُخ کرتے ہیں ۔ افغانستان سے متصل خیبر ایجنسی میں گذشتہ چھ سالوں سے عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے پہلے سے ہزاروں خاندان پشاور اور نوشہرہ کے جلوزئی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں تاہم یہ لوگ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات سے مطمئن نہیں اور گذشتہ دو ماہ سے گورنر ہاؤس کے قریب احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں -
آپریشن سے متاثرہ افراد کے ساتھ حکومتی روئیے کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ” صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے نقل مکانی کرنیوالوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی زیادتی ہے۔ انہوں نے ان بے گھر اور بے سہارا لوگوں کے ساتھ اتنی زیادتی کی ہے کہ شائد دہشت گردوں نے بھی اتنی زیادتی نہ کی ہو ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سارے کام چھوڑ کر ملک و قوم کے لیےگھر بار چھوڑنے والوں کے مسائل کے حل اور انکی بحالی کو تر جیح دیں ۔ “
خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد دو ملین سے تجاوز کرچکی ہے جن میں زیادہ تر جنوبی اضلاع اور دارالحکومت پشاورمیں رہائش پذیر ہیں، گرچہ حکومتی ادارے بعض علاقوں میں انکی مدد کررہے ہیں لیکن نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت واپسی کا مطالبہ کررہی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق شمالی وزیرستان کا نوے فیصد علاقہ کلیئر کردیا گیا ہے لہٰذا انہیں اپنے گھر واپس جانے دیا جائے لیکن فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا ہے ” ہم جتنا دھماکہ خیز مواد برآمد کررہے ہیں اسے ضائع کرنے میں وقت لگتا ہے کیونکہ ٹنوں کے حساب سے یہاں دھماکہ خیز مواد موجود ہے انکا مزید کہنا تھا کہ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ جب یہ لوگ واپس جائیں تو علاقہ پہلے سے بہتر ہونا چاہئے اور وہاں وہ تمام سہولیات ہونی چاہیں جو ملک کے دیگر شہروں اور علاقوں میں ہیں “ -
قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا رد عمل خیبر پختونخوا میں سامنے آتا ہے ۔ جمعے کے روز پاک افغان سرحد پر واقع لنڈی کوتل بازار کو سیل کردیا گیا۔ سرچ آپریشن کے دوران ایک مشتبہ گاڑی سے ڈھائی سو کلو گرام بارود ی مواد برآمد کرلیا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق دھماکہ خیز مواد تخریب کاری کی غرض سے لایا جارہا تھا جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔