خیبر پختونخواہ میں ’کرسمس کیک کا مزہ‘
4 نومبر 2014پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کی حکومت نے نصابی کتابوں سے ’مسیحی‘ کیک کو ہٹانے کا حکم جاری کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایک اسلام پسند حکمران اتحاد کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جانے پر کیا گیا۔
محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار بشیر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ایک ایمبولینس کی تصویر بھی نصابی کتابوں سے ہٹا دی جائے گی جس پر کراس (صلیب) کا نشان ہے۔
ایسی تبدیلیاں جماعت اوّل سے دہم کی نصابی کتابوں میں کی جا رہی ہیں اور یہ اقدام صوبے میں نصابی کتابوں کو اسلامی بنانے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
وزیر برائے لوکل گورنمنٹ عنایت اللہ خان نے ڈی پی اے کو بتایا: ’’مقصد یہ ہے کہ بچوں کو وہ چیزیں سکھائی جائیں جو ہمارے مذہب کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ آخر کار ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں۔‘‘
خان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے جو اس صوبے کے حکمران اتحاد میں شامل ہے۔ اس صوبے کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور اسے شدت پسندوں کی کارروائیوں کی مار سہنی پڑی ہے۔
گزشتہ برس صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک گرجا گھر کے دروازے پر خود کش دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں تقریباﹰ نوّے مسیحی عبادت گزار ہلاک ہو گئے تھے۔
اس صوبے پر 2008ء سے 2013ء کے عرصے میں سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت رہی ہے۔ اس نے بھی نصابی کتب میں تبدیلیاں کرتے ہوئے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی آیات ہٹا دی تھیں جبکہ صنفی برابری جیسے موضوعات شامل کیے گئے تھے۔
خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے ہٹائی گئی چیزیں اب دوبارہ نصابی کتب کا حصہ بنائی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ہم گزشتہ حکومت کی جانب سے ہٹائی گئی ہر ہر چیز واپس لائیں گے۔‘‘
بشیر حسین شاہ کے مطابق اس منصوبے کا اطلاق آئندہ تعلیمی سال سے متوقع ہے جو یکم اپریل سے شروع ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ دیگر مجوزہ تبدیلیوں کے تحت نوجوان لڑکیوں کی وہ تصویر بھی ہٹا دی جائے گی جس میں انہیں اسلامی حجاب کے بغیر دکھایا گیا ہے جبکہ ’گُڈ مارننگ‘ کو بھی مسلمانوں کی عربی زبان کے تہنیت سے تبدیل کر دیا جائے گا۔
ڈی پی اے کے مطابق نصابی کتب پر کنٹرول دہائیوں سے پاکستان میں سیاسی تنازعوں کا موضوع رہا ہے۔ لبرل اور قدامت پسند سیاسی پارٹیاں اکثر نصابی کتب میں ایسا مواد شامل کرتی ہیں جس کے ذریعے ان کے نظریات کو فروغ حاصل ہو سکے۔
ماہرِ تعلیم حامد خان کا کہنا ہے: ’’بچپن میں جو بھی سکھایا جاتا ہے وہ رہتی زندگی تک اعتقاد کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتیں نصابی کتب پر کنٹرول چاہتی ہیں۔‘‘
تجزیہ کار خادم حسین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ایک ایسے معاشرے میں مذہبی عدم برداشت کے رویے فروغ پائیں گے جہاں لوگ پہلے ہی دوسرے کے اعتقادات کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔