خیبر پختونخوا: احتجاج کے بعد لازمی حجاب کا حکومتی فیصلہ واپس
17 ستمبر 2019
پاکستان میں صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے طالبات کے لیے حجاب کو لازمی قرار دے دینے کا اپنا حالیہ فیصلہ وسیع تر عوامی احتجاج کے بعد واپس لے لیا ہے۔ اس اچانک فیصلے پر سول سوسائٹی کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی تھی۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل سترہ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے ایک سرکاری حکم نامے کے تحت اس بات کو لازمی قرار دے دیا تھا کہ صوبے بھر میں تمام طالبات کو حجاب پہننا چاہیے۔ مگر پشاور حکومت کے اس اقدم کی سول سوسائٹی کی طرف سے اور سوشل میڈیا پر سرگرم شہریوں کی طرف سے شدید مذمت کی جا رہی تھی۔
پاکستان کے پنجاب اور سندھ جیسے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند سمجھے جانے والے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے طالبات کے لیے حجاب لازمی کر دینے کا فیصلہ ابھی ایک روز پہلے پیر سولہ ستمبر کو ہی کیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت طالبات کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا تھا کہ وہ پورے جسم کو ڈھانپ دینے والا برقعہ، عبایا یا مکمل حجاب استعمال کریں۔
لڑکیوں کے تحفظ کے نام پر پابندی
اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے صوبائی وزیر تعلیم ضیااللہ بنگش نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ دینے کے لیے کیا گیا تھا اور اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ خیبر پختونخوا کی طالبات دیکھنے میں مہذب اور 'پاکباز‘ نظر آئیں۔ ضیااللہ بنگش نے مزید کہا تھا، ''ہم چاہتے ہیں کہ لڑکیاں خود کو محفوظ تصور کریں اور ان کے والدین کو بھی کوئی تشویش نہ ہو۔‘‘
لیکن پھر آج منگل سترہ ستمبر کو پشاور حکومت نے صرف ایک دن بعد ہی یہ متنازعہ فیصلہ واپس بھی لے لیا۔ اس فیصلے کی منسوخی سے قبل سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم شہریوں کی طرف سے شدید تنقید کرتے ہوئے یہ الزامات بھی لگائے جا رہے تھے کہ صوبائی حکومت نہ صرف طالبات کو مکمل حجاب یا برقعے کا پابند بنا کر جابرانہ فیصلے کی مرتکب ہوئی ہے بلکہ یہی اقدام طالبان کے ان فیصلوں کی یاد بھی دلاتا ہے، جب طالبان کئی علاقوں میں اپنے بہت زیادہ اثرو رسوخ کی وجہ سے ایسے فیصلے کیا کرتے تھے۔
خیر پختونخوا، جس میں اب وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں یا فاٹا کو بھی شامل کیا جا چکا ہے، کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں اور ماضی میں اس صوبے کے کئی علاقے نہ صرف پاکستانی طالبان کے زیر اثر تھے بلکہ اس دوران ان عسکریت پسندوں نے لڑکیوں کے لیے تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں گرلز اسکولوں کو بم دھماکوں سے اڑا بھی دیا تھا۔
برقعہ، حجاب اور نقاب، اسلام میں پردے کے مختلف رنگ
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
6 تصاویر1 | 6
سرکاری فیصلے کی منسوخی پر اطمینان
پشاور میں صوبائی حکومت بھی اسلام آباد میں وفاقی حکومت کی طرف وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے ہی بنا رکھی ہے۔ اس صوبے میں انسانی حقوق کے لیے فعال ایک سرگرم کارکن تیمور کمال نے ڈی پی اے کو بتایا، ''مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ لڑکیوں کے حوالے سے اس جابرانہ حکومتی فیصلے کو واپس لے لیا گیا ہے۔ کم عمر اور نوجوان لڑکیوں کو برقعہ پہننے یا مکمل حجاب کرنے پر مجبور کر دینا بہت ہی خوف ناک بات ہوتی۔‘‘
پشاور حکومت نے اب اپنا جو فیصلہ واپس لے لیا ہے، اس فیصلے سے محض چند روز پہلے ہی پاکستان میں ایک ایسی یونیورسٹی نے، جس کا انتظام ملکی بحریہ کے پاس ہے، اپنے کیمپس کی حدود میں موجودگی کے دوران اور کمرہ ہائے جماعت میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر بھی عوامی سطح پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
م م / ع س (ڈی پی اے)
پشاور: دہشت گردی میں کمی سے فوڈ انڈسٹری اور سیاحت میں ترقی
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے لیے 2015ء کے مقابلے میں 2016ء بہتر سال ثابت ہوا۔ گزشتہ برس پشاور میں دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی تو تجارتی مراکز، فوڈ انڈسٹری اور سیاحت کے شعبوں میں بھی غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آئی۔
تصویر: Danish Baber
پشاور میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری
پشاور گزشتہ قریب دو دہائیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے کافی متاثر ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہ شہر ہر میدان میں پیچھے رہ گیا تھا۔ اب لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اب پشاور میں ملکی اداروں کے علاوہ بین الاقوامی ادارے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
دہشت گردانہ حملوں میں واضح کمی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ء میں ملک بھر میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے بہت کم واقعات پیش آئے، جس کی وجہ شمال مغربی قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن ضرب عضب کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Danish Baber
حالات میں بہتری کا مثبت کاروباری نتیجہ
حالات بہتر ہوتے ہی اپنی خوش خوراکی اور مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور پشاور کے شہریوں کی دلچسپی کے پیش نظر مقامی مارکیٹوں میں ملکی اور بین الاقوامی فوڈ کمپنیوں نے اپنی فرنچائزڈ شاخیں کھول دیں۔
تصویر: Danish Baber
’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ بھی پشاور میں
ترکی کے مشہور ’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ کو دسمبر 2016ء میں پشاور میں متعارف کرانے والے احسان اللہ کہتے ہیں کہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں ان کے فوڈ ہاؤس میں ہر روز لوگوں کا ہجوم لگا رہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہر کے شدت پسندی سے متاثرہ عوام تفریح چاہتے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
’چائے خانہ‘ میں ستّر اقسام کی چائے
اس تصویر میں اسد علی نامی شہری اپنے دوستوں کے ساتھ ’چائے خانہ‘ میں بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول پشاور میں ’چائے خانہ‘ جیسی جگہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ صرف ایک ماہ تک پہلے صارفین ’ستّر اقسام کی چائے کے لیے مشہور‘ اس کیفے کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسلام آباد تک کا سفر کرتے تھے لیکن اب انہیں یہ سہولت پشاور ہی میں دستیاب ہے۔
تصویر: Danish Baber
کراچی کا فوڈ برانڈ تئیس ملکوں میں
’باربی کیو ٹونائٹ‘ کے نام سے مشہور کراچی کے اس فوڈ برانڈ کی پاکستان کےعلاوہ بھی بائیس ممالک میں شاخیں ہیں۔ کشیدہ حالات کی وجہ سے پشاور میں ’باربی کیو ٹونائٹ‘ کا آغاز کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اس برانڈ کی پشاور فرنچائز کے مالک کے مطابق خیبر پختونخوا میں اشیائے خوراک اور ریستورانوں کے شعبوں میں محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Danish Baber
نئے ریستوراں ایک منافع بخش کاروبار
پشاور کے لوگوں عام طور پر دیسی کھانوں مثلاﹰ چپلی کباب اور مٹن کڑاہی کے دلدادہ تصور کیے جاتے ہیں تاہم مختلف فاسٹ فوڈ ریستورانوں پر لوگوں کے ہجوم اور آئے دن نئے مشہور ریستورانوں کا کھلنا اس امر کے اشارے ہیں کہ مقامی اور علاقائی طور پر فاسٹ فوڈ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: Danish Baber
سولہ پاکستانی شہروں میں چوالیس میکڈونلڈز
امریکی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز کا دنیا بھر میں ایک بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے سولہ بڑے شہروں میں اس ریستوران کی چوالیس فرنچائزڈ شاخیں قائم ہیں۔ میکڈونلڈز نے گزشتہ برس پشاور میں اپنے قدم جمائے اور بہت تھوڑے عرصے میں ریکارڈ کاروبار کیا۔ عوامی دلچسپی کے پیش نظر اس سال پشاور میں میکڈونلڈز کی ایک اور شاخ بھی کھولی جا رہی ہے۔
تصویر: Danish Baber
’نان سنس‘ جو کوئی ’نان سنس‘ نہیں
گوکہ ٹرک آرٹ سے سجایا گیا ’نان سنس‘ پشاور کا ایک مقامی ریستوراں خیال کیا جاتا ہے تام دلکش بناوٹ اور مختلف فوڈ آئٹمز کے عجیب و غریب اور مزاحیہ نام لوگوں کو اس ریستوراں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ریستوراں میں آ کر مہمان کچھ دیر کے لیے اپنی ذہنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
آسٹریلین ’کون ہیڈز‘ بھی اب پشاور میں
آسٹریلوی برانڈ ’کون ہیڈز‘ میں آئے ہوئے نعمان خان کہتے ہیں کہ کم ہی عرصے میں وہ پشاور میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ’’اب ہم پشاور میں رات گئے تک ملکی اور بین الاقوامی ریستورانوں میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے کھانے کھا سکتے ہیں۔ پہلے نہ تو حالات اچھے تھے اور نہ ہی ہمارے پاس انتخاب کا امکان اتنا زیادہ تھا۔‘‘
تصویر: Danish Baber
آسٹریلوی کافی ہاؤس ’گلوریا جینز‘
گلوریا جینز کے نام سے مشہور آسٹریلین کافی شاپ کی خیبر پختونخوا آمد کے بارے میں اس کمپنی کی ایک فرنچائز کے مالک احسان اللہ کا کہنا ہےکہ پشاور کے لوگ عرصہ دراز سے گھروں میں محصور تھے اور ان کے لیے روایتی کھانوں سے ہٹ کر ایک نئے ذائقے کی ضرورت تھی، جو گلوریا جینز نے ان کو فراہم کیا۔ ’’لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ہم بھی ابھی تک یہاں ہیں۔‘‘
تصویر: Danish Baber
سرمایہ کاری کے لیے پرکشش معاہدے
پشاور میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عربی کے بقول صوبائی دارالحکومت میں بین الاقوامی فوڈ انڈسٹری کی طرف سے سرمایہ کاری اس خطے میں امن و امان کی بڑی نشانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے اچھے معاہدوں اور سرمایہ کاری کے بہتر ماحول کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ اب پشاور کا رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
’باب پشاور‘ جو اب ’سیلفی برج‘ بن چکا ہے
سال 2016ء میں انتہائی تیز رفتاری سے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل کیے گئے اس کثیر المنزلہ پل کو ’باب پشاور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کشیدہ حالات کے ستائے خیبر پختونخوا کے عوام اس پل کو بھی کسی تفریحی مقام سے کم نہیں سمجھتے۔ دن رات وہاں لوگوں کے رش اور تصاویر بنانے کے شوق کی وجہ سے اس پل کو مقامی لوگ ’سیلفی برِج‘ کہنے لگے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
پشاور میں صفائی کا سال
ماضی میں پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور کو ایک بار پھر پھولوں کا شہر بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے سال 2017ء کو صفائی کا سال قرار دیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کی طرح پشاور کو گندگی سے بھی پاک کر دینے کے لیے ’گلونہ پیخور‘ کے نام سے شہر کی صفائی کی مہم شروع کی گئی ہے، جس میں شہری بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔