خیبر پختونخوا: جرائم میں ملوث کم سن بچوں کی تعداد میں اضافہ
فریداللہ خان، پشاور
9 جنوری 2023
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ اور تعیلم و تربیت کے لیے قوانین بنائے تو گئے لیکن نافذ نہ ہو سکے۔ ستر فیصد قوانین کے نفاذ کے لیے قواعد نہ بننے کا ایک نتیجہ نابالغ بچوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ بھی ہے۔
اشتہار
سال 2022ء کے دوران خیبر پختونخوا میں مختلف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں کُل 329 بچے گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے 265 بچوں پر قتل، اقدام قتل، ریپ، چوری، راہزنی اور دیگر سنگین جرائم کے الزامات تھے۔ صوبے میں ایسے جرائم میں ملوث نابالغ ملزمان کی شرح میں اضافے کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں، جن میں والدین کی سرپرستی نہ ہونے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مابین عدم تعاون بھی شامل ہیں۔
قانون سازی سے قبل سبھی سماجی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لینا اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے آگہی کا فقدان بھی ایسے جرائم کی شرح میں اضافے کی بڑی وجوہات قرار دیے جاتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کے بجائے مہنگے ہوٹلوں میں ورکشاپیں اور سیمینار منعقد کراتے اور بڑے اشاعتی اداروں کے ذریعے اپنی مہمیں چلا تے ہیں تاکہ مالی معاونت کرنے والے اداروں کی توجہ حاصل کر سکیں۔
دیہی آبادی مکمل طور پر نظر انداز
خیبر پختونخوا کی 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ یہ شہری اکثر بچوں کے حقوق کے حوالے سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ ان دیہی علاقوں میں زیادہ تر بچے تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اب صوبے کا باقاعدہ حصہ بنائے جا چکے سابقہ قبائلی علاقوں میں تو صورت حال کہیں بد تر ہے۔
ان نئے اضلاع میں پانچ سے دس سال تک کی عمر کے 70 فیصد سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق تو صوبے میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 7.4 ملین بنتی ہے۔
اشتہار
پولیس کیا کہتی ہے؟
صوبائی پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد علی باباخیل کہتے ہیں، ''خیبر پختونخوا ملک کا ایسا پہلا صوبہ ہے، جس نے پولیس ایکٹ 2017ء کے نام سے قانون بنایا، جس میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی شقیں موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس نے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں سے چھان بین کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔‘‘
تاہم اے آئی جی باباخیل نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’پاکستان شاید سب سے زیادہ قانون سازی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن قانون ساز قوانین بنانے کے بعد مڑ کر پیچھے بھی نہیں دیکھتے۔ نہ تو قانون بنانے سے قبل ہوم ورک کیا جاتا ہے اور نہ ہی قانون سازی کے بعد اس کے عملی نفاذ کو یقینی بنانے یا اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لیے کوئی نظام موجود ہے۔‘‘
محمد علی باباخیل کے مطابق، ''اگر کوئی بچہ غلط کام کر رہا ہو، تو ہم عوامی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ہمارے ہاں بالخصوص سائبر کرائمز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل فری ایجوکیشن، مفت بستے، فری لیگل ایڈ اور صحت مند بچوں کی پیدائش کے حوالے سے شادی سے قبل مردوں اور عورتوں کے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرائے جانے کا قانون بھی بنایا تھا، لیکن آج تک اس قانون پر عمل درآمد کے لیے بھی کوئی قواعد و ضوابط طے نہیں کیے جا سکے۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
خیبر پختونخوا میں نابالغ ملزمان کو انصاف دلانے کی کوششیں کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نور عالم خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ''یہ خطہ چار دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ بہت بڑی تعداد میں بچے یتیم ہو گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بچوں کے تمام ترحقوق کی بھی نفی کر دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان سے متعلق آگہی کا فقدان ہے۔‘‘
نور عالم خان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے والدین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتے، بچوں کو ایسی تربیت نہیں دیتے کہ وہ معاشرے کے کارآمد ارکان بن سکیں، ''حکومتی اداروں کو موجودہ قوانین کو نافذ کرنے کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کرنا چاہییں۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جرم کی آڑ میں معصوم بچوں کا استحصال نہ کیا جائے۔ اگر بچوں کو مناسب تربیت نہ دی جائے اور معاشرہ بھی ان بچوں کو ان کے حقوق نہ دے تو یہی بچے پورے معاشرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔‘‘
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
چائلڈ پروٹیکشن خیبر پختونخوا
پشاور میں صوبائی حکومت نے 2010ء میں چائلڈ پروٹیکشن کا قانون منظور کروایا تھا تاہم اس کے لیے قواعد و ضوابط پانچ سال بعد متعارف کرائے گئے۔ چائلڈ پروٹیکشن خیبر پختونخوا کے سربراہ اعجاز محمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دیہی اور شہری علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ کمیٹیاں بنا چکے ہیں، جن کا کام بچوں کے استحصال کے خلاف آگاہی پھیلانا بھی ہے اور بچوں کے تحفظ کے منافی واقعات کی مرکز کو اطلاع دینا بھی۔‘‘
اعجاز محمد خان نے بتایا، ''ہم اب تک تقریباﹰ چار ہزار بچوں کے خلاف کیس حل کرا چکے ہیں۔ چائلڈ میرج کے متعدد واقعات میں بھی ہم مداخلت کر کے ایسے واقعات کو روکنے میں کامیاب رہے۔ ان میں ایسے بچے بھی تھے، جن کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ متعلقہ قانون میں اب بھی سقم موجود ہیں، جن کے باعث پولیس ایسے ہر واقعے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔‘‘
پاکستان میں اس وقت بچوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں میں سے آٹھ خیبر پختونخوا میں ہیں۔ اس صوبے میں بچوں کے حوالے سے ہنگامی حالات میں ٹیلی فون نمبر 1121 پر کال کر کے ہیلپ لائن پر فوری شکایت بھی کی جا سکتی ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔