خیبر پختونخوا، فاٹا میں دہشتگردی: قریب ڈیڑھ لاکھ افراد معذور
فریداللہ خان، پشاور
21 مئی 2018
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور ہزارہا دیگر بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور خود کش حملوں میں معذور ہوکر بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اشتہار
اگر چہ پاکستانی قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کے پاس دہشت گردی کے باعث اور اس کے خلاف جنگ کے دوران معذور ہو جانے والے شہریوں سے متعلق کوئی باقاعدہ اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم خیبر پختونخوا حکومت کا محکمہ سماجی بہبود اب تک صوبے میں ایسے ایک لاکھ انتالیس ہزار افراد کی رجسٹریشن کر چکا ہے، جو دہشت گردی کے دوران عمر بھر کے لیے معذوری کا شکار ہو گئے۔ معذوری کا شکار ہو جانے والے فاٹا کے شہریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
ان شہریوں میں مرد، خواتین اور بچے سبھی شامل ہیں۔ اس صوبائی محکمے کے اعلیٰ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ معذور افراد کی رجسٹریشن کا بنیادی مقصد ایسے متاثرین کی مدد کرنا اور انہیں معاشرے میں دوبارہ فعال کردار کا حامل بنانے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا ہے۔ پشاور میں صوبائی حکومت نے تمام صوبائی محکموں میں معذرو افراد کے لیے ملازمتوں میں ایک کوٹہ مختص کیا ہوا ہے اور رجسٹرڈ معذور افراد ایسی ملازمتوں کے لیے درخواستیں دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب بم دھماکو ں میں اپنے مختلف جسمانی اعضاء سے محروم ہ جانے والے شہریوں کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے، جو انہیں مصنوعی اعضاء فراہم کر سکے۔ نجی شعبے میں اس طرح کے علاج اور بحالی پر جتنے اخراجات اٹھتے ہیں، وہ کسی عام شہری کے بس کی بات نہیں ہیں۔
ایسے میں پشاور میں قائم ایک فلاحی ادارہ ان معذور شہریوں کو مصنوعی ہاتھ، بازو، ٹانگیں اور پاؤں فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پروستھیٹک اینڈ آرتھوپیڈک سائنس عالمی ادارہ صحت، جرمن حکومت اور انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کی مالی معاونت سے معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضاء تیار کرنے اور انہیں لگانے میں مصروف ہے۔
ڈوئچے ویلے نے پی پاس نامی اس ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عمر ایوب سے اس حوالے سے بات چیت کی، تو ان کا کہنا تھا، ’’پی پاس (PIPOS) نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ فاٹا، گلگت اور افغانستان سے آنے والے معذور افراد کو بھی علاج کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ بائیس ہزار افراد ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ اس وقت تین ہزار افراد مصنوعی اعضاء کے لیے ویٹنگ لسٹ پر ہیں۔ ہم سالانہ چھ ہزار افراد کو مصنوعی اعضاء لگا سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہا تھا کہ ایک شخص کو مصنوعی اعضاء لگانے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مریضوں اور ضرورت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں سے تین سو طلبا و طالبات نے گریجویشن کی ہے۔ اگر حکومت بڑے ہسپتالوں میں یہی سہولت فراہم کرنا شروع کر دے، تو کئی مسائل جلد حل ہو سکتے ہیں۔‘‘
پی پاس کے پاس روازنہ پچاس کے قریب افراد آتے ہیں، جنہیں مناسب مشورے دیے جاتے ہیں۔ مصنوعی اعضاء مکمل طور پر فٹ ہوں، اس کے لیے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس ادارے میں آنے والوں میں مہمند ایجنسی کا امیر عالم بھی شامل تھا، جس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چھ سال قبل ایک بم دھماکے میں میرا ایک پاؤں ضائع ہو گیا۔ سرکاری ہسپتال میں علاج کے بعد مجھے وہاں سے رخصت کیا گیا تو پھر دو سال تک میں اپنے گھر پر ہی پڑا رہا۔ پھر کسی نے مجھے پی پاس جانے کا مشورہ دیا۔ یہاں میں نے اپنی رجسٹریشن کرائی کیونکہ کسی نجی ہسپتال میں مصنوعی پاؤں لگوانے کا خرچ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں انہوں نے میری مدد کی۔ اگرچہ اب بھی معمولی تکلیف ہے تاہم اس ادارے نے چلنے پھرنے میں میری مدد تو کی۔ اب میں مطمئن ہوں کہ ایک نہ ایک دن میری یہ معمولی تکلف بھی ختم ہو ہی جائے گی۔‘‘
خیبر پختونخوا میں پولیس کا بم ڈسپوزل ٹریننگ اسکول
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں اس سال فروری سے پولیس کے ایک بم ڈسپوزل ٹریننگ اسکول میں سکیورٹی اہلکاروں کو کم از کم وقت میں بموں اور دیگر دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
انتہائی پرخطر فریضہ
خیبر پختونخوا گزشتہ قریب ایک دہائی سے دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ اس عرصے میں ملک بھر میں شدت پسندوں کے جانب سے بم دھماکوں میں ہزارہا عام شہری اور ہزاروں سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی اہلکار تو بموں کو ناکارہ بناتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
تصویر: DW/D. Baber
بنیادی تربیت اور وضاحت
شدت پسندوں کے حملے روکنے اور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کے لیے خیبر پختونخوا پولیس نے صوبے میں پولیس اسکول آف ایکسپلوسیو ہینڈلنگ (Police School of Explosive Handling) کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے، جہاں سکیورٹی اہلکاروں کو بارودی مواد کو ناکارہ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
بم ڈسپوزل روبوٹ
اس اسکول میں جدید آلات اور مشینری کے استعمال کی تربیت بھی دی جاتی ہے تاکہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار حالات میں انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔ نامناسب ٹریننگ کے باوجود سال 2009ء سے اب تک خیبر پختونخوا پولیس قریب چھ ہزار بم ڈی فیوز کر چکی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
خود کش جیکٹ کو ناکارہ بنانے کا عمل
انسپکٹر ضمیر خان خودکش جیکٹ کو ناکارہ بنانے کی تربیت دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے حالات میں کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بقول خودکش جیکٹ میں کافی مقدار میں بیرنگ بالز کا استعمال کیا جاتا ہے، جس سے شدید تباہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
دیسی ساخت کے بم
ٹریننگ اسکول میں جہاں ایک طرف جدید قسم کے تباہ کن مواد کو ڈی فیوز کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، وہیں اس سکول میں دیسی ساخت کے بارودی اور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
بم ڈسپوزل روبوٹ اور ماہر کتے
ایکسپلوسیو ہینڈلنگ اسکول میں صوبے بھر سے منتخب پولیس اہلکاروں کو بم ناکارہ بنانے والے روبوٹس استعمال کرنے کے علاوہ تربیت یافتہ کتوں کے ذریعے بارودی مواد کی نشاندہی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
عملی تربیت
ایک پریکٹیکل ٹریننگ سیشن کے دوران ماسٹر ٹرینر بم ڈسپوزل اسکواڈ کے جوانوں کو روبوٹ کے درست استعمال کی تربیت دیتے ہوئے۔ اس قسم کے روبوٹ کو دور بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ شفیق خان کے بقول خیبر پختونخوا پولیس کے پاس اس قسم کے چار جدید روبوٹس موجود ہیں، جن کا محتلف مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
شہداء کی یادگار
سہولیات کے فقدان کی وجہ سے گزشتہ برسوں کے دوران صوبے کے محتلف اضلاع میں بم ناکارہ بناتے ہوئے کئی صوبائی پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل تھے، جو شہریوں کو بچاتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر گئے۔ اس اسکول میں ان شہداء کی ایک یادگار بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
صوبے میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ
پولیس اسکول آف ایکسپلوسیو ہینڈلنگ صوبے بھر میں وہ واحد ادارہ ہے، جہاں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ارکان اور دیگر پولیس اہلکاروں کو بارودی مواد ناکارہ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ صوبے کے ضلع نوشہرہ میں یہ اسکول اس سال فروری میں قائم کیا گیا تھا، جہاں سے اب تک بیسیوں اہلکار پاس آؤٹ کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
9 تصاویر1 | 9
اس ادارے سے اب تک تین سو طلبا و طالبات اپنی گریجویشن مکمل کر چکے ہیں۔ اس ادارے کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت علی کہتے ہیں، ’’خیبر پختونخوا کے کسی ہسپتال میں معذوروں کے علاج یا انہیں مصنوعی اعضاء کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہاں سے لوگوں نے گریجویشن کی ہے۔ کئی مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک چلے گئے۔ ہمارے یہاں اس ادارے میں بھی زیادہ تر لوگ ملازمتوں کے معاہدوں کے تحت کام کرتے ہیں، جن کا کوئی دیرپا مستقبل نہیں ہوتا۔ حکومت کو اس طرح کے ادارے سے مکمل تعاون کرنا چاہیے تاکہ یہ عوام کو آئندہ زیادہ بھرپور انداز میں سہولیات فراہم کر سکے۔‘‘
پاکستان میں قریب تین عشروں پر محیط دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ میں جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق بھی لاکھوں افراد جسمانی طور پر متاثر یا معذور ہوئے ہیں، وہاں ایک بہت بڑی تعداد میں مرد اور خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے سماجی بہبود کے محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اکیس ہزار سے زیادہ خواتین و حضرات ڈپریشن کا شکار ہیں جبکہ دہشت گردوں کی طرف سے کیے گئے بم دھماکوں کی وجہ سے اپنی سماعت کی اہلیت سے محروم ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی تیس ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔
معاشی بدحالی کے شکار سوات کے مزدور
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پخونخوا کی وادی سوات میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور کم اُجرت ملنے اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے سے بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ وادی طویل عرصے تک دہشت گردی سے متاثرہ رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
کام ملتا نہیں اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
وادی سوات میں روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کئی ہفتوں تک کام نہیں ملتا اور وہ سارا دن کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ مینگورہ کے رہائشی مزدور نور زمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ دوسرا ہفتہ ہے کہ انہیں کوئی کام نہیں ملا جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ نور زمان کے مطابق لوگوں سے اُدھار لے کر گھر کا چولہا چل رہا ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
دہشت گردی، قدرتی آفات اور اب فاقے
دہشت گردی، فوجی آپریشن اور قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ حال وادی سوات کی معیشت تاحال اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی جس کے باعث کاروبارِ زندگی مفلوج اور مزدور فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
سخت محنت اور کم اُجرت،کیا خریدوں؟
مینگورہ کے ایک اور مزدور عطاءالرحمن نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے تین چار سو روپے کی دہاڑی لگ جاتی ہے، ’’ان پیسوں سے گھر کا کرایہ ادا کریں یا بجلی کا بل؟ گھریلوں اخراجات پوری کریں یا بچوں کی اسکول کی فیس کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے؟
روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ آج پوری دنیا میں اُن کے نام پر چھٹی منائی جا رہی ہے۔ حسین علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں علم نہیں کہ آج کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے، ’’ہم تو اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
بارہ افراد کا واحد کفیل
کامران خان چائے کے ہوٹل میں روزانہ کی اجرت پر کام کرتا ہے اور گھر کے دیگر بارہ افراد کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ کامران کے مطابق روزانہ پانچ سو روپے ملتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ’’مہنگائی میں روزبروز اضافے اور کم اجرت سے زندگی جینا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
مزدوروں کا استحصال اور قانون سازی
ملک بھر کی طرح وادی سوات کے مزدوروں کے استحصال میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کےمطابق مؤثر قانون سازی نہ ہونے اور حکومتی عدم توجہی کے باعث مزدور طبقہ غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ اگر مؤثر قانونی سازی کی جائے اور اس پر فوری عمل کیا جائے تو اس طبقے کی محرومیاں دور ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
مفلوج کاروبار زندگی
وادی سوات میں اس وقت معاشی حالات ابتر ہیں جس کے باعث مزدوروں کی زندگیاں بھی متاثر ہو رہی ہے، مینگورہ کے ایک کاروباری شخص اکرام اللہ نے بتایا کہ جب حالات بہتر تھے تو کاروبار بھی منافع بخش تھا مگر اب ہم اپنا خرچہ برداشت نہیں کرپاتے تومزدوروں کو کہاں سے دیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
کارخانے بند، مزدور بے روزگار
سوات میں ریاستی دور سے بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں چل رہی تھیں جن میں سلک اور کاسمیٹک انڈسٹریز نمایاں تھیں، اب وہ کارخانے بھی زیادہ تر بند ہیں اور اس میں کام کرنے والے سیکڑوں مزدور بے روزگار ہیں۔