1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

خیبر پختونخوا میں عسکری کارروائی، سترہ طالبان جنگجو ہلاک

مقبول ملک ، اے پی کے ساتھ
27 ستمبر 2025

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ملک کے شمال مغرب میں مسلح کارروائی کے دوران ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کم از کم سترہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ جھڑپ صوبے خیبر پختونخوا کے علاقے کڑک میں ہوئی۔

پاک افغان سرحد کے قریب گشت کرتے پاکستانی فوجیوں کی ایک گاڑی
خیبر پختونخوا میں سکیورٹی دستے عسکریت پسندوں کے خلاف اکثر کارروائیاں کرتے رہتے ہیںتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سکیورٹی دستوں نے عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے کے خلاف کارروائی شروع کی، تو ان کی وہاں چھپے ہوئے طالبان جنگجوؤں کے ساتھ باقاعدہ جھڑپ شروع ہو گئی۔

صوبائی پولیس کے مطابق جمعہ 26 ستمبر کو ہونے والی اس جھڑپ میں ٹی ٹی پی کے 17 عسکریت پسند مارے گئے۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے علاقائی سربراہ شہباز الہٰی نے بتایا کہ کڑک میں ہونے والی اس مسلح جھڑپ میں تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے، جن کا علاج جاری ہے۔

دو روز قبل بھی تیرہ طالبان جنگجو مارے گئے تھے

شہباز الہٰی نے مزید تفصیلات بتائے بغیر بس اتنا کہا کہ مارے جانے والے شدت پسند ''خوارج‘‘ تھے۔ اسلامی تاریخی پس منظر کی حامل یہ وہ اصطلاح ہے، جو ملکی حکام اور سکیورٹی فورسز پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی پی کے ارکان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں اکوڑہ ختک کے مقام پر دارالعلوم حقانیہ میں ہونے والے ایک خود کش بم حملے کے بعد کا منظر، فائل فوٹوتصویر: Abdul MAJEED/AFP

پاکستان کے شمال مغربی علاقوں، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب اور ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا فاٹا کہلانے والے خطوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارو‌ں کے اہلکار عسکریت پسندوں کے خلاف اکثر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

جمعے کے روز ایک خفیہ اطلاع ملنے کے بعد طالبان کے ایک ٹھکانے پر کیے جانے والے آپریشن سے دو روز قبل بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بڑی مسلح جھڑپ ہوئی تھی، جس میں حکام کے مطابق 13 طالبان جنگجو مارے گئے تھے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں میں پھر کافی تیزی آ چکی ہے۔ ایسا خاص طور پر ہمسایہ ملک افغانستان میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہوا ہے۔ پاکستان میں ان خونریز حملوں کی ذمے داری اکثر تحریک طالبان پاکستان یا کچھ دیگر مسلح عسکریت پسند گروپ قبول کر لیتے ہیں۔

پشاور میں ایک بم حملے کے بعد موقع پر موجود پولیس اور ملکی فوج کے اہلکار، فائل فوٹوتصویر: Hussain Ali/ZUMA PRESS/picture alliance

پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی کی وجہ

پاکستانی طالبان اور ان کی ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی پی کا افغانستان  میں حکمران طالبان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ دو مختلف گروپ ہیں، مگر دونوں کی سوچ اور نظریات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے حلیف ہیں۔

پاکستانی طالبان کے بارے میں سیاسی اور دفاعی حکام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ 2021ء میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے بہت سے رہنما افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں، جہاں سے وہ پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

کابل میں طالبان کی حکومت اسلام آباد کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن پاکستانی طالبان کی قیادت کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق اطراف کے یہی متضاد دعوے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین مسلسل تناؤ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔

ادارت: شکور رحیم

تیراہ وادی میں دھماکے: تحقیقات یقینی بنائی جائے، مظاہرین

03:55

This browser does not support the video element.

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں