خیبر پختونخوا میں ’ٹوائے گنز‘ پر پابندی
8 جولائی 2015جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی طرف سے ٹوائے گنز یعنی ایسے کھلونوں کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو ہتھیاروں کی شکل کے ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق اس اقدام کا مقصد انتہا پسندی پر مبنی رحجانات کے پھلنے پھولنے کو روکنا ہے۔
افغانستان کی سرحد سے قریب واقع پاکستان کا شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا، گزشتہ ایک عشرے سے اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جاری خونریز لڑائی کا ایک گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس صوبے کی قبائلی پٹی کے فعال جنگجوؤں کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے بھی تعلقات بتائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے ہمسایہ ملک چین سے لاکھوں کی تعداد میں کھلونے اسمگل کر کے پاکستان کے مختلف علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی لائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اس صوبے میں بھی بچے ان کھلونوں میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ مختلف ہتھیاروں کی شکل کے ان کھلونوں سے کھیلنے کے نتیجے میں بچوں میں انتہا پسندانہ رحجانات اور رویوں کی طرف راغب ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ اسی لیے ہم نے ان کھلونوں کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر صرف ایک اہم ضلع میں یہ پابندی عائد کی جا رہی ہے اور عید کے موقع پر کوشش ہو گی کہ دوکانوں پر یہ کھلونے دستیاب نہ ہوں۔‘‘
پاکستان میں عید کے موقع پر کھلونوں کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس برس پاکستان میں عید انیس جولائی کو متوقع ہے۔ مشتاق غنی کے مطابق، ’’ہماری کوشش ہو گی کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ عید کے موقع پر گنز والے کھلونے فروخت نہ ہوں۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ پاکستان بھر میں مارکیٹوں میں ایسے کھلونے دستیاب ہیں، جو AK-47s، G-3s، مشین گنز، پستولوں اور ایسے دیگر ہتھیاروں کی شبیہ ہوتے ہیں کہ جو بالکل اصلی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بہت سے بچے ان کھلونوں کو ہاتھوں میں لیے دوسرے بچوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پانچ برس کی عمر کے بچے بھی ان کھلونوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔
اس صوبے میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے درمیان کی عمر کے بچوں کا پسندیدہ کھیل فوج اور جنگجوؤں کے مابین لڑائی کا ہے، جس میں کچھ بچے فوجی کا روپ اختیار کرتے ہیں اور کچھ جنگجوؤں کا۔ ایسی لڑائی کے یہ مناظر یہ بچے ٹیلی وژن پر یا کبھی کبھار اپنے ہمسایہ علاقوں میں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا کی ایک ماہر نفسیات سعدیہ عباسی نے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ ہتھیاروں کی موجودگی اور براہ راست پرتشدد واقعات دیکھنے کے نتیجے میں بچوں میں یہ رحجان پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ’’یہ بچے اصل ہتھیاروں کو بھی پکڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔‘‘