1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں پھر ایک پولیو ورکر کو قتل کر دیا گیا

مقبول ملک اے ایف پی
2 جولائی 2017

شمال مغربی پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں انسدادِ پولیو کی مہم کے ایک کارکن کو دو نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ اس ہلاکت کی پشاور میں صوبائی محکمہ صحت کے حکام نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے اتوار دو جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق قتل کیا جانے والا میڈیکل ورکر اس صوبے میں بچوں کو پولیو کے خلاف حفاظتی قطرے پلانے کی ایک حکومتی مہم میں شریک تھا اور اسے ہفتہ یکم جولائی کی شام گولی مار دی گئی۔

پولیس کے مطابق یہ طبی کارکن پولیو کی بیماری کے خلاف ایک دور دراز رہائشی علاقے میں ویکسینیشن مہم کے بعد اپنے کیمپ میں واپس لوٹ رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے، جو خود کار رائفلوں سے مسلح تھے، اسے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ بعد ازاں حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اے ایف پی کے مطابق مقتول کا نام نہیں بتایا گیا اور ابھی تک کسی بھی مسلح گروپ نے اس قتل کی ذمے داری بھی قبول نہیں کی۔ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسند انسدادِ پولیو مہم کے کارکنوں پر کئی خونریز حملے کرتے رہے ہیں۔ ان حملوں میں دسمبر 2012ء سے لے کر اب تک مجموعی طور پر 100 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں پولیو کے خلاف ویکسینیشن کی مختلف اوقات پر مکمل کی جانے والی کئی طبی مہموں کے دوران عسکریت پسندوں نے ایسے کارکنوں پر حملے کرنا اس وقت شروع کیے تھے، جب یہ پتہ چلا تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ایک رہائشی کمپاؤنڈ میں موجودگی کی تصدیق کے لیے اس طرح کی ایک جعلی ویکسینیشن مہم کا سہارا لیا تھا۔

پاکستان میں دسمبر دو ہزار بارہ سے لے کر اب تک مجموعی طور پر سو سے زائد پولیو کارکن مارے جا چکے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

اس تصدیق کے بعد، جس میں پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی نے سی آئی اے کی مدد کی تھی، امریکی فوجی دستوں نے 2011ء میں ایبٹ آباد میں بن لادن کے رہائشی کمپاؤنڈ پر ایک شبینہ کمانڈو آپریشن کر کے القاعدہ کے مطلوب رہنما کو ہلاک کر دیا تھا۔

پاکستان میں پولیو ورکرز پر کیے جانے والے ان ہلاکت خیز حملوں کے باوجود ملکی حکومت کو امید ہے کہ اگلے سال تک پاکستان کا نام دنیا کے ان ممالک کی فہرست سے خارج ہو سکے گا، جہاں پولیو کا وائرس ابھی تک پایا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے قواعد کے مطابق جس ملک کا نام پولیو وائرس سے متاثرہ ممالک کی فہرست سے خارج کیا جانا ہو، اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہاں کم از کم ایک سال کے عرصے میں اس بیماری کا کوئی نیا کیس سامنے نہ آیا ہو۔

پاکستان اس وقت دنیا کے ان صرف دو ممالک میں سے ایک ہے، جہاں بچوں کو معذور بنا دینے والی اس بیماری کا وائرس ابھی تک پایا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں