ثقافتی ورثہ: خیبر پختونخوا کی تاریخی عمارات کا مستقبل کیا؟
26 دسمبر 2024پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کا محکمہ آثار قدیمہ بھی پرعزم ہے کہ ان دونوں تاریخی حویلیوں کی مکمل بحالی اور تزئین جلد ہی مکمل ہو جائے گی۔ سوال لیکن یہ ہے کہ اسی صوبے میں خستہ حالی کا شکار سینکڑوں دیگر تاریخی عمارات کا کیا ہو گا؟
راج کپور اور دلیپ کمار کے آبائی گھر: ثقافتی ورثہ جو میوزیمز میں بدل جائے گا
یوں تو پشاور جنوبی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، جہاں تاریخی عمارتوں کی کمی نہیں مگر قصہ خوانی بازار کا ایک گھر اور ڈھکی منور شاہ کی ایک حویلی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران خصوصی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی گھر ہیں، جنہیں 2013 میں صوبائی حکومت نے ثقافتی ورثہ قرار دے دیا تھا اور 2017ء میں اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔
’ثقافت کے زندہ امین، حکومتی مالی امداد کے منتظر‘
کلچر ہیریٹیج کونسل کے منتظم شکیل وحید اللہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ''ہم دلیپ کمار اور راج کپور کو یاد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے تاکہ یہ موضوع زندہ رہے۔ اگر مقامی لوگوں کی کوشیش اور میڈیا کی توجہ نہ ہوتی، تو آج یہ عمارتیں کمرشل پلازوں میں تبدیل ہو چکی ہوتیں۔"
وحید اللہ کہتے ہیں، ”جن لوگوں کے پاس یہ گھر تھے، ان کے اور حکومت کے درمیان تنازعہ چلتا رہا، بالآخر 2021 میں صوبائی حکومت نے راج کپور کی حویلی تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے اور دلیپ کمار کا گھر تقریباً پچاسی لاکھ میں خرید لیا تھا۔"
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بخت محمد ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ''دونوں گھروں کی حالت انتہائی خستہ ہے، ہم خواہش کے باوجود کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ فنڈز ہی نہیں تھے۔ اب ورلڈ بینک کے اعلان کے بعد ہم پرعزم ہیں اور بہت جلد یہ حویلیاں بحال کر کے میوزیمز میں تبدیل کر دی جائیں گی۔"
میڈیا کی توجہ اور ورلڈ بینک کے تعاون کے بعد مذکورہ عمارات کی بحالی کی توقع تو کی جا سکتی ہے مگر خیبر پختونخوا کی دیگر تاریخی عمارات کس حال میں ہیں اور ان کا مستقبل کیا ہو گا؟
خیبر پختونخوا میں پرانی عمارتیں ثقافتی ورثہ کیسے ٹھہرائی جاتی ہیں، تعداد کتنی؟
بخت محمد کہتے ہیں، ”2016ء میں خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے اینٹیکوئٹی ایکٹ پاس کیا تھا، جس کے مطابق ہر وہ عمارت یا چیز جو سو سال یا اس سے زیادہ پرانی ہو، وہ ثقافتی ورثہ ہے اور اسے تبدیل یا ضائع کرنا قابل سزا جرم ہے۔"
پاکستان میں داستان گوئی، ناپید ہوتی ہوئی ایک روایت
اس امر کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سو سال سے زیادہ پرانی عمارات کی مختلف کیٹیگریز ہیں، ”پہلے سروے کیا جاتا ہے اور ایسی قدیمی عمارتوں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو سو سال یا اس سے بھی زیادہ پرانی ہوں۔ صوبے میں تقریباً بیس ہزار سے زائد ایسی عمارتیں اور مقامات ہیں۔ اس کے بعد ان کی رجسٹریشن کا مرحلہ آتا ہے۔ اب تک ہمارے پاس آٹھ ہزار چھ سو مقامات باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ ایسی عمارات کے مالکان سے ہم رابطے کرتے ہیں اور انہیں خریدنے یا محفوظ کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد محفوظ مقامات یا 'پروٹیکٹڈ سائٹس‘ آتی ہیں، جن کی صوبے میں تعداد 86 بنتی ہے۔ پروٹیکٹڈ کا مطلب ہے کہ ایسے مقامات بحال ہو چکے اور عام شائقین کے لیے کھلے ہیں، جبکہ رجسٹرڈ عمارات بحالی کی منتظر ہیں یا ان پر کام جاری ہے۔"
جب ڈی ڈبلیو نے ان سے جاننا چاہا کہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں آج کس حال میں ہیں، تو بخت محمد کا کہنا تھا، ”صوبے میں 38 اضلاع ہیں، جن میں سے 22 میں محکمہ آثار قدیمہ کا سٹاف یا دفتر ہی نہیں ہے۔ آپ خود بتائیں کہ وہاں تاریخی عمارات کی دیکھ بھال اور حفاظت کی صورت حال کیا ہو سکتی ہے؟‘‘
سخت قوانین کے باوجود تاریخی عمارات کی مسماری کا سلسلہ جاری
پشاور کے مقامی صحافی ذیشان کاکاخیل کے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک میں گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ”خیبر پختونخوا میں 2019 سے لے کر 2023 تک 100 سے زائد مقامات یا نوادرات کو نقصان پہنچایا گیا یا انہیں اسمگل کر دیا گیا۔"
کاکاخیل لکھتے ہیں، ”اس عرصے میں محکمہ آثار قدیمہ نے 38 مقدمات درج کروائے لیکن کسی بھی ملزم کو نہ تو کوئی جرمانہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔‘‘بہت سے دیگر تاریخی مقامات کی مسماری کے علاوہ ذیشان کاکاخیل لنڈی کوتل کے ایک قدیم مندر کا ذکر بھی کرتے ہیں، جسے ایک کمرشل پلازے کی تعمیر کے لیے گرا دیا گیا۔
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر عبدالصمد خان تاہم اس مندر کی مسماری کی تردید کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ اینٹیکوئٹی ایکٹ کے مطابق کسی بھی تاریخی عمارت یا نادر مقام کو ”تباہ کرنا، توڑنا، نقصان پہنچانا، تبدیل کرنا، کھرچنا، خراب کرنا یا کسی بھی قسم کی تحریر یا نشان کندہ کرنا، یا کسی محفوظ شدہ یا اہم تاریخی مقام سے کچھ اتار لینا‘‘ سبھی کچھ جرم ہے، جس کے نتیجے میں ”کسی بھی فرد کو پانچ سال تک کی قید یا بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔"
خیبر پختونخوا کی تاریخی لائبریری کی ڈیجیٹلائزیشن
شکیل وحید اللہ کہتے ہیں، ”قوانین اور ان پر عمل درآمد سے زیادہ اہمیت ذہنی رویے رکھتے ہیں۔ آپ نظام تعلیم کو دیکھیں، کیا کسی ایک جگہ بھی ثقافتی ورثے اور آثار قدیمہ سے بچوں کی ذہنی یا جذباتی وابستگی پیدا کی گئی؟ ہمارے ریاستی یا قومی بیانیے میں کہیں بھی تاریخی عمارتیں یا مقامی کلچر نظر آتا ہے؟ ہمارے لیے ہزاروں سالہ پرانا مندر محض ایک ڈھانچہ ہے، جسے گراتے ہوئے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ہمارا مجموعی رویہ پراپرٹی ڈیلروں والا ہے، ثقافت پسند قوموں والا نہیں۔"
راولپنڈی کے راجہ بازار کی تاریخی عمارتیں ثقافتی ورثہ کیوں نہ بن سکیں؟
دہشت گردی، مذہبی شدت پسندی، فنڈز کی کمی اور مخدوش مستقبل
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بخت محمد کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں محکمہ آثار قدیمہ کے کام میں بہت سی رکاوٹیں ایسی ہیں، جو دوسرے صوبوں میں نہیں ہیں۔ ان کے بقول، ”یہ صوبہ سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے۔ دہشت گردی کا ہمیں دو طرح سے نقصان ہوتا ہے۔ صوبے میں سیر و سیاحت اور تفریح محدود ہو رہی ہے، باہر سے سیاح کم آتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے میوزیمز کو بہت کم آمدنی ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمیں خود اپنی سرگرمیاں بھی محدود کرنا پڑ جاتی ہیں۔"
ریسرچ سپرنٹنڈنٹ اور ماہر آثار قدیمہ محمد خالد کہتے ہیں کہ بڑا مسئلہ فنڈز کا ہے، ”مثال کے طور پر فاٹا کا انضمام ہوا، ابتدائی سروے میں ہم نے کچھ مقامات کی نشان دہی کی مگر فنڈنگ ہی نہیں ہیں تو ہم مزید کیا پیش رفت کر سکتے ہیں؟"
تھرپارکر کے جین مندر اور وراثت کی حفاظت کا سفر
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ریسرچ سکالر احمد بلور کہتے ہیں، ”ایک بڑا مسئلہ مذہبی شدت پسندی ہے۔ بدھا کے مجسمے توڑے گئے، جب ایک وزیر اعظم نے اسلام آباد میں مندر قائم کرنے کی بات کی، تو شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ مردان میں ایسی پہاڑیوں پر کان کنی کی جاتی رہی، جہاں قدیم تاریخ کے ہزار سال پرانے نقش تھے۔ کاش کہ ہمارے لیے قدیم عمارتیں بھی مقدس ہوتیں۔"
شکیل وحید اللہ کہتے ہیں، ”دلیپ کمار اور راج کپور کی حویلیاں بچا لی جائیں گی، لیکن خیبر پختونخوا کی ہزاروں دیگر تاریخی عمارات کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ دلیپ کمار اور راج کپور کا بڑے ناموں اور میڈیا اور سول سوسائٹی کی پندرہ بیس سالہ جدوجہد کے باوجود وہ حویلیاں کھنڈر بن گئیں، تو دیگر تاریخی عمارات کے مستقبل کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔"