1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

خیبر پختونخوا کی جامعات مالی و انتظامی بحران کا شکار کیوں؟

فریداللہ خان، پشاور
13 نومبر 2024

ایک سال سے بھی زائد عرصے سے خیبر پختونخوا کی 32 سرکاری جامعات میں سے 24 مستقل وائس چانسلر سے محروم ہیں۔ دوسری جانب مالی مشکلات کی وجہ سے انتظامی عملہ اور اساتذہ آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد جامعات کی اضافی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے
خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد جامعات کی اضافی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: Faridullah Khan

مستقل وائس چانسلرز نہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا کی جامعات کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یونیورسٹی اُمور چلانے کے لیے 24 جامعات پرو وائس چانسلرز کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔

قبل ازیں نگران دور حکومت کے میں جامعات کے لیے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے اشتہار دیا گیا تھا اور مختلف مراحل کے بعد سرچ کمیٹی نے نام تجویز کر کے ان کی تقرری آنے والی منتخب حکومت کے ذمے چھوڑ دی تھی۔

 تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد انہوں نے نگران دور حکومت کی سرچ کمیٹی کی سفارشات مسترد کر کے سرچ کمیٹی کو ازسرنو وائس چانسلرز کے لیے سفارشات تیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن نگران دور میں سرچ کمیٹی کے شارٹ لسٹڈ امیدواروں نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا۔ اس پر ان کے حق میں فیصلہ ہوا تاہم اس پر تاحال عمل درآمد نہ ہو سکا، جس کی وجہ سے زیادہ تر جامعات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلرکا موقف

زرعی یونیورسٹی پشاور میں حال ہی میں تنخوا اور بقایا جات کی ادائیگی کے لیے احتجاج کرنے والے اساتذہ اور انتطامیہ کے مابین مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد تعلیمی سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہاں بخت سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ''اساتذہ اور انتظامیہ کے اہلکاروں کے مطالبات مشروط طور پر تسلیم کیے گئے ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے پاس فنڈز موجود ہوں تو تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس اضافے سے یونیورسٹی پر 25 کروڑ روپے سالانہ کا اضافی بوجھ پڑے گا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت نے انہیں فنڈز دیے تو یونیورسٹی تنخوا کے ساتھ ساتھ پینشن میں بھی اضافہ کرے گی، '' لیکن ایسا نہ کرنے پر مئی میں ہمیں پھر سے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اب تو داخلوں کی رقم اور گرانٹ مل گئی، اپریل تک اسی رقم سے کام چلائیں گے۔‘‘

 پروفیسر ڈاکٹر جہاں بخت کا کہنا تھا، ''اگر ہم ان کے مطالبات نہ مانتے توبچوں کا وقت ضائع ہو رہا تھا۔ اگر ہم تنخواہوں میں اضافہ نہ بھی کریں تو ہمیں 15 کروڑ روپے کی ضرورت ہو گی۔‘‘

خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد جامعات کی اضافی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: Faridullah Khan

پینشن کے بقایا جات

خیبرپختونخوا کی جامعات کو پینشن کی ادائیگی میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ چار یونیورسٹیز کے پینشن کے بقایا جات اربوں روپے ہیں۔ یونیورسٹی آف پشاور کے پینشن بقایا جات ایک ارب دوکروڑ سالانہ سے زیادہ ہیں۔ انجنئیرنگ یونیورسٹی پشاورکے 70کروڑ اور گومل یونیورسٹی کے 85 کروڑ ہیں۔ پرانی یونیورسٹیوں کا سب سے بڑا مسئلہ پینشن کی ادائیگی ہے۔ اب صوبائی حکومت نے پینشن کی ادائیگی کا ذمہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پرانی جامعات بحران سے نکل سکتی ہیں۔‘‘

یونیورسٹیوں کی اضافی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ

خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد جامعات کی اضافی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں مردان کے یونیورسٹیز بھی شامل ہیں لیکن مردان کی ضلعی حکومت اور مقامی افراد اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان چانسلر کے عہدے کی دوڑ

گورنر خیبر پختونخوا یونیورسٹیز کے چانسلر ہوتے ہیں لیکن اب صوبائی کابینہ کے 17ویں اجلاس کے دوران خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ 2012 میں ترمیم کرنے کی منظوری دی گئی ہے، جس سے یونیورسٹیز کے انتظامی معاملات سے متعلق بعض تبدیلیوں سمیت وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار وزیر اعلیٰ کو دینے کی ترمیم بھی شامل ہے۔ ان مجوزہ ترامیم کے تحت وزیر اعلیٰ تمام سرکاری جامعات کے چانسلر ہوں گے اور وائس چانسلرز کی تقرری کی مدت تین سال سے بڑھا کر چار سال کی جائے گی۔

فیسوں میں اضافہ طلبہ کے لیے اضافی مشکلات پیدا کر رہا ہےتصویر: Faruq Azam/DW

ایک ہی شخص بیک وقت تین عہدوں پر فائز کیسے؟

خیبرپختونخوا کی زیادہ تر سرکاری جامعات میں گزشتہ سال سے پرو وائس چانسلر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض جامعات میں ایک ہی اہلکار بیک وقت تین عہدوں پر کام کر کے اس کے عوض مراعات لے رہا ہے۔ ایک ہی شخص بیک وقت پرو وائس چانسلر، ڈین اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ہے۔

طلبہ کیا کہتے ہیں؟

پشاور یونیورسٹی میں زیر تعلیم بی ایس کے طالب علم وحید الرحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پشاور یونیورسٹی کا شمار پاکستان کے تاریخی جامعات میں ہوتا ہے لیکن اس کا معیار سرکاری اسکولوں کی طرح روز بہ روز گرتا جا رہا ہے۔ کبھی اساتذہ ہڑتال پر تو کبھی انتظامی اہلکار سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور یونیورسٹی کا معیار اب وہ نہیں رہا اور فیسوں میں اضافہ طلبہ کے لیے اضافی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں