’دائيں بازو کی شدت پسندی روکنے کے ليے اضافی اختيارات درکار‘
15 اکتوبر 2019
جرمنی ميں دائيں بازو کی شدت پسندی کے تازہ ترين واقعے کے بعد حکام نے انٹرنيٹ پر ايسے رجحانات کی روک تھام پر توجہ دينے کی ضرورت پر زور ديا ہے۔ اس ضمن ميں جرمن پوليس نے اضافی اختيارات کا مطالبہ بھی کيا ہے۔
اشتہار
انتہائی دائيں بازو کی شدت پسندی سے نمٹنے کے ليے جرمن پوليس کو اضافی اختيارات درکار ہيں۔ جرمنی کی داخلی انٹيليجنس ايجنسی (BfV) کے سربراہ تھوماس ہالڈن وانگ کے مطابق جرمن شہر ہالے کے علاوہ امريکی رياست ٹيکساس، ناروے اور نيوزی لينڈ ميں ايک ہی طرز کے فائرنگ کے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہيں کہ سکيورٹی سروسز کو انٹرنيٹ پر انتہائی دائيں بازو کی شدت پسندی کے پھيلاؤ کو روکنے يا اس پر نگاہ رکھنے کے ليے بہتر وسائل و اختيارات کی ضرورت ہے۔
جرمنی کے شہر ہالے ميں اسٹيفان بی نامی ايک ملزم نے حال ہی ميں حملے کی غرض سے ايک يہودی عبادت گاہ کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ تاہم وہ اس ميں کامياب نہ ہو سکا۔ بعد ازاں اس نے قريبی علاقے ميں فائرنگ کی، جس سے دو افراد ہلاک اور چند ديگر زخمی ہو گئے۔ اس ستائيس سالہ ملزم نے تفتيش کے دوران پوليس کو بتايا کہ اس نے حملے ميں استعمال ہونے والے ہتھيار انٹرنيٹ پر دستياب معلومات و معاونت سے تيار کيے تھے۔ حملے سے قبل اس نے سامیت مخالف تحرير شائع کی اور پھر حملے يا فائرنگ کے مناظر براہ راست انٹرنيٹ پر ايک گيمنگ ويب سائٹ پر نشر کيے تھے۔
اس حملے کے بعد جرمن حکام نے انتہائی دائيں بازو کی شدت پسندی سے نمٹنے کے ليے اضافی اہلکاروں کی تعيناتی کا مطالبہ کيا ہے۔ يہ بھی کہا گيا ہے کہ انٹرنيٹ پر دائيں بازو کی شدت پسندی کے پھيلاؤ کو روکنے اور اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکام کے مطابق انٹرنيٹ يکساں خيالات کے حامل افراد کو قريب لانے ميں مدد فراہم کر رہا ہے۔ يہی جرمنی ميں پہلے اسلامی طرز کی شدت پسندی کے فروغ ميں بھی ديکھا جا چکا ہے۔
تھوماس ہالڈن وانگ نے اس ضمن ميں مطالبہ کيا ہے کہ مشتبہ افراد کے آلات ميں جاسوسی يا نگرانی کرنے والی تنصيبات کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی خفيہ رابطہ کاری پر نگاہ رکھی جا سکے۔ جرمنی کے فيڈرل کرمنل پوليس آفس کے سربراہ ہولگر ميونچ کا کہنا ہے کہ انٹرنيٹ پر دھمکياں اور تشدد کے مناظر ايک خوف کی سی کيفيت پيدا کر رہے ہيں اور اسی سبب جرمنی ميں لوگ پوليس ميں شامل نہيں ہو رہے۔ ميونچ نے کہا، ''دائیں بازو کی شدت پسندی ہماری جمہوريت کے ليے خطرہ ہے۔‘‘
فيڈرل کرمنل پوليس آفس کے سربراہ نے بتايا کہ ان کے محکمے نے انتہائی دائيں بازو کے تينتاليس ايسے شدت پسندوں کی شناخت کی ہے، جنہيں ايک خطرہ تصور کيا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر جرمنی ميں دائيں بازو کے خيالات سے متاثرہ 12,700 ايسے افراد ہيں، جن کے بارے ميں سکيورٹی حکام کا ماننا ہے کہ وہ تشدد کا عنصر بروئے کار لانے کے ليے تيار ہيں۔ ہولگر ميونچ نے بالخصوص انٹرنيٹ پر نفرت آميز تحارير کی نگرانی بڑھانے اور دائيں بازو کے شدت پسندوں کے ڈيٹا کو زيادہ مدت تک محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور ديا۔ ان کے مطابق فيس بک اور ٹوئٹر سے نفرت آميز مواد فوراً ہٹانے کے قانون پر زيادہ موثر انداز ميں عملدرآمد بھی لازمی ہے۔
پچھلے دس سالوں کے دوران دنيا بھر ميں مسلم، يہودی اور سياہ فام افراد کی برادرياں انتہائی دائيں بازو کے سياسی نظريات کے حامل افراد کے کئی پر تشدد حملوں کا نشانہ بنی ہيں۔ ايسے چند بڑے حملوں کی تفصیلات اس پکچر گيلری میں۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم خاندان کے ارکان پر ٹرک حملہ
کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک شخص نے اپنا پک اپ ٹرک پیدل چلنے والے ایک مقامی مسلم خاندان کے افراد پر چڑھا دیا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ لندن میں پیش آنے والے اس واقعے کا بیس سالہ مشتبہ ملزم حملے کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم کچھ دیر بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ پال وائٹ کے مطابق اس جرم کا ارتکاب مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
نيوزی لينڈ، سن 2019: دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے
کرائسٹ چرچ ميں جمعہ پندرہ مارچ کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں ميں انتہائی دائيں بازو کے ایک دہشت گرد نے، جو ایک آسٹریلوی شہری ہے، دو مساجد میں جمعے کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس افراد کو ہلاک کر ديا۔ يہ نيوزی لينڈ کی تاريخ میں دہشت گردی کے بد ترين اور سب سے ہلاکت خیز جڑواں واقعات تھے۔
تصویر: picture-alliance/empics/PA Wire/D. Lawson
جرمنی، سن 2019: نئے سال کی آمد پر حملہ
جرمنی کے مغربی شہروں بوٹروپ اور اَيسن ميں اکتيس دسمبر کی رات نئے سال کی آمد کی تقريبات کے دوران ايک پچاس سالہ حملہ آور نے تارکين وطن پر حملے شروع کر ديے۔ اپنی گاڑی کی مدد سے اس حملہ آور نے آٹھ افراد کو زخمی کيا۔ مجرم نے شامی اور افغان خاندانوں کو نشانہ بنايا تھا۔ پوليس نے بعد ازاں تصديق کی کہ حملہ آور غير ملکیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
امريکا، سن 2018: يہوديوں کی عبادت گاہ پر فائرنگ
ستائیس اکتوبر سن 2018 کے روز ايک چھياليس سالہ حملہ آور نے امريکا کے شہر پٹسبرگ ميں يہوديوں کی ايک عبادت گاہ پر حملہ کر کے گيارہ افراد کو قتل اور سات ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے اپنی کارروائی سے قبل ساميت دشمن جذبات کا مظاہرہ بھی کيا تھا اور انٹرنيٹ پر اس ضمن ميں مواد بھی جاری کيا تھا۔ يہ امريکا ميں يہوديوں پر کیا گیا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Rourke
کينيڈا، سن 2017: کيوبک کی مسجد پر حملہ
کينيڈا کے شہر کيوبک کے اسلامی ثقافتی مرکز پر جنوری 2017 کے اواخر ميں ايک مسلح حملہ آور نے فائرنگ کر کے چھ افراد کو ہلاک اور ايک درجن سے زائد کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے مغرب کی نماز کے دوران نمازيوں پر فائرنگ کی تھی۔ بعد ازاں کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے مسلمانوں پر ايک ’دہشت گردانہ‘ حملہ قرار ديا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
برطانيہ، سن 2017: فنسبری پارک مسجد
برطانوی دارالحکومت لندن کے شمالی حصے ميں ايک سينتاليس سالہ حملہ آور نے فنسبری پارک کے قريب واقع مسجد کے قريب کھڑے افراد کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا تھا۔ اس حملے ميں ايک شخص ہلاک اور دس ديگر زخمی ہوئے تھے۔ تمام متاثرين مسلم تھے، جو ماہ رمضان ميں فجر کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ حملہ آور نے بعد ازاں تسليم کيا تھا کہ اس نے يہ کارروائی ’اسلام دشمنی‘ کی وجہ سے کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
جرمنی، سن 2016: ميونخ ميں فائرنگ کا واقعہ
ايک اٹھارہ سالہ ايرانی نژاد جرمن شہری نے بائيس جولائی سن 2016 کے روز ميونخ کے ايک شاپنگ مال ميں فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک اور چھتيس ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ بعد ازاں حملہ آور خود بھی مارا گيا تھا۔ پوليس کے مطابق مجرم اجانب دشمنی ميں مبتلا تھا اور نسل پرستانہ رجحانات کا حامل بھی تھا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اسے اسکول ميں اس کے ساتھی اکثر تنگ کيا کرتے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Simon
امريکا، سن 2015: چارلسٹن کے چرچ ميں قتل عام
امريکا ميں سياہ فام افراد کے چرچ ’ايمانوئل افريقی ميتھوڈسٹ ايپسکوپل چرچ‘ پر سترہ جون سن 2015 کو ايک اکيس سالہ نوجوان نے حملہ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ رياست جنوبی کيرولائنا کے شہر چارلسٹن ميں پیش آنے والے اس واقعے ميں نو افريقی نژاد امريکی شہری اور ايک پادری ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
امريکا، سن 2015: چيپل ہل شوٹنگ
دس فروری سن 2015 کے روز يونيورسٹی کے تین عرب مسلم طلبہ، جو ایک مرد، اس کی بیوی اور اس کی خواہر نسبتی پر مشتمل تھے، ان کے ايک سفيد فام پڑوسی نے قتل کر ديا تھا۔ چھياليس سالہ مجرم خود کو مذہب مخالف قرار دیتا تھا اور وہ ان تینوں مقتولين کو کئی مرتبہ ڈرا دھمکا بھی چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد امريکا ميں #Muslimlivesmatter کا ہيش ٹيگ وائرل ہو گیا تھا۔
دائيں بازو کے انتہا پسند آندرس بريوک نے 22 جولائی 2011ء کو دوہرے حملے کرتے ہوئے 77 افراد کو قتل کر ديا تھا۔ پہلے اس نے اوسلو ميں ايک علاقے ميں بم دھماکا کيا جہاں کئی سرکاری دفاتر موجود تھے اور پھر ايک سمر کيمپ ميں طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حملے سے قبل بريوک نے اپنا منشور بھی جاری کيا تھا، جس کے مطابق وہ يورپ کے کثير الثقافتی معاشروں اور اس براعظم ميں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Berit
امريکا، سن 2017: شارلٹس وِل ميں کار سے حملہ
رياست ورجينيا کے شہر شارلٹس وِل ميں نيو نازيوں کی ايک ريلی کی مخالفت ميں احتجاج کرنے والوں پر ايک قوم پرست شخص نے گاڑی چڑھا دی تھی۔ اس حملے ميں ايک عورت ہلاک اور درجنوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ يہ واقعہ بارہ اگست کے روز پيش آيا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P.J. Richards
جرمنی، سن 2009: ڈريسڈن کی عدالت ميں عورت کا قتل
مصر سے تعلق رکھنے والی مروا الشربينی کو ڈريسڈن کی ايک عدالت ميں يکم جولائی سن 2009 کو قتل کر ديا گيا تھا۔ ان کا قاتل ايک اٹھائيس سالہ روسی اور جرمن شہريتوں کا حامل ملزم تھا، جس کے خلاف الشربينی نے اپنے قتل سے چند لمحے قبل ہی گواہی دی تھی۔ مجرم نے قبل ازيں الشربينی کو ’دہشت گرد اور اسلام پسند‘ کہا تھا۔ مروا الشربينی کے قتل کو جرمنی ميں ’اسلاموفوبيا‘ کے نتيجے ميں ہونے والا پہلا قتل قرار ديا جاتا ہے۔