داخلی رسہ کشی ایرانی خارجہ پالیسی کے لیے زہر قاتل، جواد ظریف
26 فروری 2019
ایرانی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان رسہ کشی ایک ’خوفناک زہر‘ ہے جو ملکی خارجہ پالیسی کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ بات مستعفی ہونے والے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی، جو آج منگل کو شائع ہوا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد جواد ظریف کے اس بیان سے لگتا ہے کہ انہوں نے اُن سخت گیر عناصر کے دباؤ کے سبب وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے، جو 2015ء میں عالمی برادری کے ساتھ طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے میں ان کے کردار پر اعتراض کرتے آ رہے تھے۔
جواد ظریف 2013ء سے ایرانی وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اور عالمی برادری کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے تہران کے جوہری معاہدے کے طے پا جانے میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ایرانی اخبار ’جمہورِ اسلامی‘ سے بات کرتے ہوئے ظریف نے کہا، ’’ہمیں سب سے پہلے اپنی خارجہ پالیسی کو جماعتوں اور دھڑوں کی لڑائی سے الگ کرنا ہو گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’خارجہ پالیسی کے لیے یہ بات زہر قاتل کی طرح ہے کہ اسے جماعتوں اور دھڑوں کی لڑائی کا حصہ بنا دیا جائے۔‘‘
ایران کی فارس نیوز ایجنسی کے مطابق جواد ظریف سے یہ انٹرویو گزشتہ ہفتے لیا گیا تھا، یعنی ان کے وزارت خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے قبل۔ اس کے بعد پیر پچیس فروری کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا تھا، ’’اپنی ذمہ داری مزید جاری نہ رکھنے اور اپنی مدت وزارت کے دوران خامیوں اور کوتاہیوں پر میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘
ایرانی صدر حسن روحانی نے ابھی تک جواد ظریف کا استعفیٰ باقاعدہ طور پر قبول نہیں کیا۔ ایرانی پارلیمانی ارکان کی ایک بڑی تعداد نے صدر حسن روحانی کو لکھے گئے ایک ایسے خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ جواد ظریف کے استعفے کو قبول نہ کریں۔
جواد ظریف نے اپنے انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ انہوں نے جوہری معاہدے کے سلسلے میں بات چیت کے دوران سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی رہنمائی پر عمل کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاہدے سے الگ ہونے کے معاملے میں ایرانی صدر حسن روحانی کے بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ ٹرمپ نے گزشتہ برس مئی میں ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد واشنگٹن نے دوبارہ تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
اپنے اس انٹرویو میں جواد ظریف نے کہا، ’’ٹرمپ کی مذمت کے بجائے آپ لوگوں کے منتخب کردہ صدر کی مذمت کرنے کیوں چلے آتے ہیں؟ آپ آتے ہیں اور خارجہ پالیسی کی مذمت کرتے ہیں؟ اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ مستقبل کے حوالے سے امید کھو بیٹھیں گے۔‘‘
ایرانی نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق جواد ظریف نے ملکی وزارت خارجہ کے سفارت کاروں اور دیگر اہلکاروں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے الگ نہ ہوں۔
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔