داسو ڈیم کی تعمیراتی چینی کمپنی کے کیمپ آفس میں آتش زدگی
4 اپریل 20232015ء کے بعد سے بیجنگ حکومت اپنی سرمایہ کاری اسکیم 'چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘ یا سی پیک کے تحت پاکستان میں کئی بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکی ہے۔ پاکستانی عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں کے خوف کے باوجود چین کی پرائیویٹ کمپنیاں پاکستان میں تعمیراتی منصوبوں اور سروسز کی فراہمی کے معاہدے حاصل کرنے کے لیے پیش پیش ہیں۔
پولیس کے مطابق ملک کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں زیر تعمیر داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ کا ایک گودام آج منگل چار اپریل کو علی الصبح آگ لگنے کے سبب تباہ ہو گیا۔ یہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے 180 کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔
ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے ریسکیو 1122 کے ایک اہلکار کی طرف سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا گیا کہ یہ بہت بڑی آگ تھی: ''ابتداء میں شعلے بہت بلند تھے اور ہمیں دو دیگر اضلاع سے فائربریگیڈ طلب کرنا پڑی۔‘‘
آتش زدگی کا شکار ہونے والے گودام کے بارے میں اس اہلکار کا کہنا تھا، ''یہ ایک بہت بڑا گودام تھا جس میں تیل کے زخیرے کے علاوہ بہت بڑی مقدار میں اسٹیشنری اور مشینری بھی موجود تھی۔ اس آگ میں یہ سب کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔‘‘
اس کیمپ میں چینی انجینیئر اور دیگر عملہ بھی موجود تھا تاہم ریسکیو 1122 اور پولیس دونوں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ آتش زدگی کے سبب نہ تو کوئی جانی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی۔ ایک پولیس اہلکار کے مطابق آگ لگنے کی وجہ ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ بنا۔ پاکستان کی وزارت برائے آبی ذخائر نے 2017ء میں داسو ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کی کمپنی 'گیزہوبا گروپ‘ کو دیا تھا۔
جولائی 2021ء میں داسو کی تعمیراتی سائٹ پر ورکرز کو لے جانے والی ایک بس میں سوار نو چینی ورکرز سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ چین کا اصرار تھا کہ یہ بس ایک بم حملے کا نشانہ بنی تھی۔
اسلام آباد نے ابتداء میں اس واقعے کی وجہ 'گیس لیک‘ کو قرار دیا گیا تھا تاہم اس کے فوری بعد اس مقام کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔
اچھے اقتصادی تعلقات کے باوجود پاکستان میں کام کرنے والے چینی ورکرز کی سکیورٹی کے سوال پر بیجنگ حکومت کو تحفظات رہے ہیں۔
ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپس لوٹ آنے کے بعد سے پاکستان کے مغربی حصے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، یہ وہی علاقے ہیں، جہاں چین سرمایہ کاری کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
ا ب ا/ش ر (اے ایف پی)