داعش سے تعلق، 19 روسی خواتین کے لیے عمر قید کی سزا
29 اپریل 2018
عراق کی ایک عدالت نے دہشت گرد گروپ داعش سے تعلق پر 19 روسی خواتین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ عراق کی طرف سے داعش سے تعلق رکھنے والی غیر ملکی خواتین کے خلاف سخت فیصلوں کی یہ تازہ کڑی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دہشت گردی سے متعلق مقدمات سننے والی بغداد کی مرکزی فوجداری عدالت کے سربراہ نے کہا کہ ان خواتین پر یہ الزام ثابت ہو گیا ہے کہ انہوں نے ’’داعش میں شمولیت اختیار کی اور اس کی مدد کی‘‘۔
اے ایف پی کے مطابق آج اتوار 29 مئی کو ہی آذر بائیجان سے تعلق رکھنے والی چھ خواتین جبکہ ازبکستان سے تعلق رکھنے والی چار خواتین کو بھی انہی الزامات کے تحت عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ جن خواتین کو سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں سے اکثریت کے ساتھ ان کے بچے بھی موجود ہیں۔ ان خواتین کو اس سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔
فیصلے کے وقت عدالت میں موجود ایک روسی سفارتکار نے اے ایف پی کے بتایا، ’’ہم ان خواتین کے والدین سے رابطہ کریں گے تاکہ انہیں اس فیصلے سے متعلق آگاہ کیا جا سکے۔‘‘
دہشت گرد گروپ داعش نے سال 2014ء کے دوران عراق کے قریب ایک تہائی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جس میں ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضہ بھی شامل تھا۔ بغداد حکومت کی طرف سے داعش کو شہر کے تمام شہری علاقوں سے نکال باہر کر دینے کے بعد گزشتہ برس دسمبر میں داعش کے خلاف فوجی فتح کا اعلان کیا گیا تھا۔
عراقی فورسز کے داعش کے خلاف آپریشن کے دوران کم ازکم 560 خواتین اور 600 ایسے بچوں کو حراست میں لیا گیا جنہیں داعش کے جنگجوؤں کے رشتہ دار قرار دیا گیا۔ ان کے خلاف عراقی عدالتیں تیز رفتاری سے فیصلے سنا رہی ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ عراقی جیلوں میں 20 ہزار ایسے افراد موجود ہیں جن پر داعش کا رکن ہونے کا شبہ ہے تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی اعداد وشمار جاری نہیں کیے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراقی عدالتیں اب تک 300 سے زائد افراد کو داعش سے تعلق کے الزام میں سزائے موت سنا چکی ہیں جن میں درجنوں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ عراق کے انسداد دہشت گردی سے متعلق قانون کے تحت ایسے افراد کو بھی سزا دی جا سکتی ہے جن پر یقین ہو کہ انہوں نے شدت پسندوں کی مدد کی تھی بھلے وہ براہ راست کسی حملے میں شامل نہ بھی رہے ہوں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔