طالبان کی جانب سے افغانستان میں امن کا قیام ایک بڑا چیلنج ہے۔ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی شاخ اسلامک اسٹیٹ ان خراسان یا آئی ایس ۔کے نے خونریز حملوں سے افغانستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
اشتہار
حال ہی میں افغانستان کے صوبے قندوز میں شیعہ مسلمانوں کی مسجد میں کیے گئے ایک خود کش حملے میں کئی افراد ہلاک ہو گئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق داعش کی یہ شاخ اس جنگ زدہ ملک میں شیعہ سنی فسادات کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ لیکن طالبان کا ماضی بھی صاف نہیں۔ ایک جائزہ ان دونوں گروہوں پر
داعش اور طالبان کا موازنہ
داعش کی پیدائش سن 2014 میں ہوئی جب عراق اور شام کے شدت پسند سنی جنگجوؤں نے اس 'خلافت' کی بیت کی۔ ان کا مقصد مستقبل میں ایک مسلمان خلافت کا قیام تھا ۔ ابو بکر البغدادی کی قیادت میں اس تنظیم نے عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔ امریکی پشت پناہی والی افواج نے داعش کا مقابلہ کرتے ہوئے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن داعش کے اس قبضے نے دنیا کے مختلف خطوں میں شدت پسندوں کو اس گروہ کی طرف مائل کیا۔ ایک ایسا ہی علاقہ خراسان ہے۔ اس علاقے میں افغانستان، ایران، پاکستان اور ترکمانستان کے حصے شامل ہوتے ہیں۔
فرانسیسی تھنک ٹینک 'فاؤنڈیشن فار اسٹریٹیجک ریسرچ' کے ژاں لک مارٹ کہتے ہیں، ''اسلامک اسٹیٹ خراسان سابقہ جہادیوں کی ایک تنظیم ہے، جس میں ایغور، ازبک اور طالبان کے ناراض جنگجو شامل ہیں۔'' اس دہشت گرد تنظیم نے قندوز کے حالیہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ پیش رفت اس خطے کو درپیش سکیورٹی چینلجز کی عکاس ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق آئی ایس۔ کے کے شمالی اور مغربی افغانستان میں پانچ سو سے چند ہزار تک جنگجو ہیں۔ گزشتہ سال سے اس گروپ کی قیادت 'شہاب المہاجر' نامی ایک شخص کر رہا ہے۔ اس شخص کا نام ظاہر کرتا ہے کہ یہ شاید کسی عرب مالک سے یہاں پہنچا ہے لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا تعلق القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک سے بھی رہ چکا ہے۔ سن 2020 سے پہلے تک امریکی ڈرون اور فضائی حملوں کے باعث آئی ایس۔کے کی صلاحیت کافی کمزور پڑ گئی تھی لیکن اس نئے لیڈر کے آنے کے بعد اس گروپ میں ایک نئی جان آئی ہے۔
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
آئی ایس۔ کے اور طالبان دونوں سنی گروہ ہیں لیکن طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد شیعہ اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم آئی ایس۔ کے انہیں نشانہ بنا رہی ہے۔
طالبان اس گروہ کو 'تکفیری' کہتے ہیں۔ اس کا مطلب مسلمانوں کا ایک ایسا گروپ ہے جو دوسروں کو 'مرتد' سمجھتے ہیں لیکن آئی ایس۔ کے کے مطابق ان کے دشمن دراصل امریکا کے ہاتھوں بکے ہوئے افراد ہیں۔
ماضی میں طالبان اور IS-K کے جنجگو ایک دوسرے کے گروپوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اب جب کے طالبان خود کو ایک اعتدال پسند تنظیم کے طور پر پیش کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ انتہائی سخت نظریات کے حامی جنگجو آئی ایس۔ کے میں شامل ہونا چاہیں۔
افغان امور کے ماہر تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان افغان عوام سے امن کے قیام کا وعدہ کر رہے ہیں لیکن قندوز جیسے حملے طالبان کے اس بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔
اب طالبان کو بہت کم بیرونی امداد کے ساتھ اپنے حریف کا سامنا ہے، اور ان کے پاس امریکی فوج کی جدید ترین انٹیلیجنس جمع کرنی کی سہولیات اور نگرانی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنے دشمن اور علاقے کو جانتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے طالبان نے کابل میں آئی ایس۔ کے کے سیل کو تباہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔ اس دہشت گرد گروپ سے لڑنے کے لیے طالبان کو القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت حاصل ہے۔
جیسا کہ امریکہ میں قائم سوفان سینٹر کی ایک رپورٹ نے وضاحت کی کہ، '' آئی ایس۔کے سے لڑنے کے لیے طالبان افرادی قوت، جنگی مہارت اور لاجسٹک سپورٹ کے لیے حقانی نیٹ ورک، القاعدہ اور دیگر پر تشدد غیر ریاستی عناصر پر انحصار کرنے جا رہے ہیں۔''