’داعش نے دس ہزار سے زائد شامی و عراقی پاسپورٹس چوری کيے‘
20 دسمبر 2015گزشتہ برس شام اور عراق ميں کئی علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے داعش کے شدت پسندوں نے اِن ملکوں کے تقريباً دس ہزار نئے، قابل استعمال پاسپورٹس اپنے قبضے ميں لے ليے تھے۔ ايک جرمن اخبار کے ہفتہ وار میگزین ’ويلٹ ام زونٹاگ‘ نے مغربی انٹيليجنس ايجنسيوں کے ذرائع سے اس بارے ميں خبر آج بروز اتوار شائع کی ہے۔ اخبار کے مطابق اس گروپ کی جانب سے رقوم جمع کرنے کے ليے اِن شناختی و سفری دستاويزات کی فروخت کی گئی۔ بليک مارکيٹ ميں ايسے پاسپورٹس قريب ڈيڑھ ہزار فی عدد کے حساب سے بکتے رہے ہيں۔ انٹيليجنس حکام کو خدشہ ہے کہ دہشت گرد يورپ پہنچنے کے ليے ان دستاويزات کو استعمال کر سکتے ہيں۔
قبل ازيں گزشتہ پير کے روز ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں ميں بتايا گيا تھا کہ جعلی شامی پاسپورٹس پر جرمنی کا سفر کرنے والوں کی تعداد وزارت داخلہ کی جانب سے لگائے جانے والے اندازوں سے کہيں کم ہے۔ جرمنی ميں اب تک صرف آٹھ فيصد افراد جعلی شامی دستاويزات پر يہاں پہنچے ہيں۔
اتوار بيس دسمبر کو ’ويلٹ ام زونٹاگ‘ ميں شائع ہونے والی رپورٹ ميں يورپی يونين کی بارڈر گارڈ ايجنسی فرنٹيکس کے سربراہ فابريس ليگيری کے حوالے سے بتايا گيا ہے کہ ’يورپ کی جانب بغير کسی قسم کے کنٹرول کے ہونے والی ہجرت سکيورٹی کے لحاظ سے ايک خطرہ ہے‘۔ ليگيری نے بتايا کہ فرنٹيکس کے اہلکار مہاجرين کے تمام دستاويزات باالخصوص سفری دستاويزات کا معائنہ تو کرتے ہيں تاہم سرسری معائنے ميں اس بات کی کوئی گارنٹی نہيں دی جا سکتی کہ شام جيسے شورش زدہ ممالک ميں کسی پاسپورٹ کا اجراء قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہوا ہو يا نہيں۔
جرمن اخبار کے مطابق ايک غير ملکی خفيہ ايجنسی نے حال ہی ميں جرمن حکام کو نئے اور خالی پاسپورٹس کی نمبروں کی فہرست بھيجی ہے، جنہيں اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں نے شامی علاقوں الرقعہ اور دير الصور کے علاوہ عراقی شہروں انبار، تکريت اور ننيووا سے اپنے قبضے ميں لے ليا تھا۔ اب ان معلومات کو يورپ کے ويزا فری شينگن زون کے ڈيٹا بيس ميں شامل کر ليا گيا ہے تاکہ ان پاسپورٹس پر کوئی يورپ ميں داخل نہ ہو سکے۔
فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں تيرہ نومبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے ميں ملوث دو حملہ آوروں کی تاحال شناخت ممکن نہيں ہو سکی حالاں کہ ان کے پاس شامی پاسپورٹس تھے۔ انہيں جوابی کارروائی ميں ہلاک کر ديا گيا تھا اور يہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان ميں سے ايک يونان کے ذريعے اسی روٹ سے يورپ ميں داخل ہوا تھا، جسے عموماً مہاجرين استعمال کرتے ہيں۔