داعش کا خواتین غلاموں کے ساتھ جنسی تعلقات سے متعلق فتویٰ
29 دسمبر 2015شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے اس نئے فتوے کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور اس انتہا پسند گروپ کے ایک چوٹی کے عالم کا کہنا ہے کہ یہ فتویٰ داعش کے ماضی کے اُن تمام فتوؤں پر حاوی ہوگا جو ماضی میں غلام بنائی جانے والی خواتین کے ساتھ اُن کے مالکین کے جنسی تعلقات سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کرنے کے لیے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ کے اس موضوع پر سامنے آنے والا یہ تازہ ترین فتویٰ اس امر کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ صدیوں پُرانی فرسودہ تعلیمات کو درست ثابت کرنے کی خاطر شام اور عراق میں غلام بنائی گئی خواتین کے ساتھ کیا برتاؤ رکھنا چاہتے ہیں۔
داعش کا یہ فتویٰ تحریری شکل میں اُن دستاویزات میں شامل ہے جو امریکی اسپیشل آپریشن فورسز کے ہاتھ اُس وقت لگا جب اُس نے شام میں رواں سال مئی کے مہینے میں ایک خفیہ چھاپہ مار کارروائی کے دوران اپنے قبضے میں لی تھیں۔ اِس کارروائی میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی کئی خفیہ دستاویزات کو امریکی چھاپہ مار دستے نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ خبر رساں ادارہ روئٹرز ان دستاویزات کے چند حصے پہلے ہی شائع کر چُکا ہے۔
اس فتوے میں شامل اہم ترین احکامات میں کہا گیا ہے کہ ایک خاتون غلام کے ساتھ باپ اور بیٹا دونوں جنسی تعلق نہیں رکھ سکتے۔ اس کے علاوہ ایک ماں اور بیٹی دونوں کو اپنی ملکیت میں رکھنے والے مرد کو ان دونوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ایک خاتون غلام کے مشترکہ مرد مالکین کو اُس خاتون کے ساتھ ہم بستری کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ وہ ’’ مشترکہ ملکیت‘‘ تصور کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس گروپوں کی طرف سے داعش پر ہزاروں کم سن لڑکیوں کومنظم جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے شمالی عراق میں خاص طور سے یزیدی اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والی 12 سال عمر تک کی بچیوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ ینایا ہے۔ بہت سی خواتین کو انعام کے طور پر جنگجوؤں کے حوالے کیا گیا ہے یا پھر انہیں داعش کے درندہ صفت جنگجوؤں کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا ہے۔
اپریل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے ایسی 20 خواتین کے انٹرویوز عام کیے گئے تھے، جو کسی طرح اپنی جان بجا کر داعش کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ ان خواتین نے تمام تر تفصیلات بیان کیں کہ کس طرح اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو نوجوان خواتین، لڑکیوں کو مردوں، لڑکوں اور معمر خواتین سے علیحدہ کر کے نہایت منظم اور باضابطہ طریقے سے شام اور عراق کے مختلف علاقوں تک پہنچاتے تھے۔ وہاں انہیں یا تو بیچ دیا جاتا یا تحفے کے طور پر داعش جنگجوؤں کو پیش کر دیا جاتا تھا جو ان نوجوان خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ کی طرف سے 2014 ء میں خاتون غلاموں کے ساتھ جنسی سلوک کے بارے میں تعلیمات و تفصیلات پر مبنی پمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے۔ جس کے بعد جنوری 2015 ء میں اسلامک اسٹیٹ کی کمیٹی برائے ریسرچ اور فتویٰ کی طرف سے باقاعدہ فتویٰ نمبر 64 شائع کیا گیا جس میں اداعش کے جنگجوؤں اور اُن کی خواتین علاموں کے جنسی تعلقات کو قانونی شکل دی گئی۔