داعش کا سربراہ شام میں امریکی فوجی آپریشن میں ہلاک، بائیڈن
3 فروری 2022
صدر بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا سربراہ شام میں امریکی فوج کے ایک خصوصی آپریشن میں مارا گیا ہے۔ امریکی صدر کے مطابق ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کی موت سے دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر کی طرف سے جمعرات تین فروری کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ شام میں امریکی فورسز نے اپنے ایک آپریشن میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے سربراہ کو ''میدان جنگ سے ہٹا دیا ہے۔‘‘
صدارتی بیان میں کہا گیا، ''گزشتہ رات شمال مغربی شام میں امریکی مسلح دستوں نے میرے حکم پر انسداد دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی میں حصہ لیا، جو کامیاب رہی۔ اس کا مقصد امریکی عوام اور ہمارے اتحادیوں کی حفاظت اور دنیا کو زیادہ محفوظ بنانا تھا۔‘‘
بیان کے مطابق، ''امریکی دستوں نے اپنی مہارت اور ہمت کی بدولت 'اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کے سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو میدان جنگ سے ہٹا دیا۔‘‘ صدر بائیڈن کے الفاظ میں، ''اس آپریشن کے نتیجے میں دنیا کے لیے دہشت گردی کا ایک بڑا خطرہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
ابو ابراہیم نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کے مطابق داعش کے سربراہ الہاشمی القریشی نے شمال مغربی شام میں امریکی اسپیشل فضائی فورسز کی طرف سے رات کے وقت کیے گئے ایک آپریشن کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
اس سرکردہ امریکی اہلکار نے بتایا کہ اس آپریشن کے دوران ابو ابراہیم نے اپنی جان لینے کے لیے جو زور دار بم دھماکا کیا، اس کے نتیجے میں اس کے اہل خانہ بھی مارے گئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
انتہائی طاقت ور بم کا دھماکا
امریکی حکام نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ جب ابو ابراہیم کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ امریکی دستوں کے گھیرے میں آ چکا تھا، تو اس نے جس بم کا دھماکا کیا، وہ انتہائی طاقت ور تھا۔ امریکی عسکری ذرائع کے مطابق یہ اتنا بڑا بم دھماکا تھا کہ جس عمارت میں یہ بم پھٹا، اس کی کھڑکیوں سے کئی انسانوں کی لاشوں کے ٹکڑے بھی اڑتے ہوئے ملبے کے ساتھ کافی دور دور جا کر زمین پر گرے۔
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔
صدر بائیڈن نے بعد ازاں اپنے ایک پبلک بیان میں کہا کہ اس آپریشن کے دوران ممکنہ شہری ہلاکتوں کی تعداد کم سے کم رکھنے پر پوری توجہ دی گئی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن میں کوئی امریکی فوجی اہلکار ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔
اشتہار
آپریشن میں کرد فورسز بھی شامل تھیں
داعش کے سربراہ کے خلاف اس شبینہ امریکی عسکری کارروائی میں کرد فورسز نے بھی حصہ لیا۔ یہ آپریشن شام میں ادلب کے اسی علاقے میں کیا گیا، جہاں ابو ابراہیم کا زیادہ معروف پیش رو اور داعش کا بانی سربراہ ابوبکر البغدادی بھی ایسے ہی ایک ملٹری آپریشن میں 2019ء میں مارا گیا تھا۔
ابو ابراہیم الہاشمی القریشی، جو امیر محمد سعید عبدالرحمان المولیٰ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، تقریباﹰ سوا دو سال پہلے کیے گئے ایک امریکی فوجی آپریشن میں ابوبکر البغدادی کی موت کے بعد داعش کا سربراہ بنا تھا۔