عراق کے شہر موصل پر جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا قبضہ ختم ہونے کے بعد سماجی و معاشرتی حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ کئی ریڈیو چینلز کھل گئے ہیں اور عام لوگ ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اشتہار
عراق کے تاریخی و تمدنی شہر موصل پر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے کے دوران زیادہ تر مقامی ریڈیو اسٹیشن بند کر دیے گئے تھے اور جنہیں کھلا رکھا گیا، وہ صرف جہادی مواد بشمول پراپیگنڈا نشر کرتے تھے۔ داعش کے قبضے کے دوران ان میں کسی بھی ریڈیو سے کوئی دوسرا مواد نشر ہوتا تو ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جاتی تھی۔
اس شہر کا قبضہ عراقی فوج نے چھڑا لیا ہے اور داعش کی شکست کے بعد شہر کی معاشرتی و ثقافتی صورت حال تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب موصل کی فضاؤں میں مقامی ایف ایم ریڈیوز نے ایک ہلچل کی فضا قائم کر رکھی ہے۔
ان ریڈیو چینلز پر نوجوان عراقی اپنی ذہانت کے ساتھ اپنے سامعین کو اپنی جانب راغب کیے ہوئے ہیں۔ کئی ریڈیو اسٹیشن چوبیس گھنٹے تفریحی پروگرام نشر کرتے ہیں جو ذہین نوجوانوں کی صلاحیتوں سے جگمگا رہے ہیں۔ ان نوجوان ایف ایم ڈی جیز میں کئی ٹین ایجر بھی ہیں۔ ایسی ہی ایک سولہ سالہ لڑکی نور طائی ہے اور وہ انتہائی مشاقی کے ساتھ اپنا پروگرام پیش کرتی ہے۔
رواں برس فروری میں موصل کا مرکزی ریڈیو اسٹین بحال کیا گیا اور اسی اسٹیشن پر نور طائی متفرق موسیقی کا پروگرام نشر کرتی ہے۔ اُس نے اپنے ریڈیو پر کمپیئر بننے کے شوق کی ابتدا ایک ٹیلنٹ شو میں شریک ہو کر کی تھی۔
اس ٹیلنٹ شو کا اہتمام ایک ثقافتی تنظیم الغد نے کیا تھا۔ الغد کا ریڈیو اسٹیشن شمالی عراق کے خود مختار کرد علاقے کے شہر اربیل میں واقع ہے۔ اسی شہر نے موصل پر داعش کے قبضے کے بعد بے گھر ہونے والے ہزاروں شہریوں کو پناہ دی گئی تھی۔
موصل شہر کے تفریحی ریڈیو اسٹیشنوں پر نوجوان عراقی ہی مختلف پروگراموں کی پروڈکشن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی نوجوانوں نے تو اپنی جمع پونجی سے نشریاتی آلات خریدے ہیں۔ ان اسٹیشنوں پر بہت سے نوجوان رضاکارانہ بنیادوں پر بھی اپنی خدمات فراہم کیے ہوئے ہیں۔
کئی ایسے ریڈیو اسٹیشنوں نے اپنی اپنی ویب سائٹس بھی بنا لی ہیں اور اُن کا نشریاتی مواد ایسی ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔ بعض ریڈیو اسٹیشنوں کے پروگرام اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ شہر کے کاروباری حلقے اور دوکاندار اپنے اشتہارت بھی دے رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ احمد الجفال کا کہنا ہے کہ جہادیوں کے قبضے کے دوران موصل میں ایک ثقافتی خلا پیدا ہو چکا ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو اسٹیشن جہاں ایک طرف تفریح و معلومات فراہم کریں تو دوسری جانب وہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے عملی کوششیں بھی کریں۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘