اقوام متحدہ نے آج منگل کو بتایا ہے کہ عراق کے مختلف علاقوں میں مزید اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام علاقے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے زیر قبضہ رہ چکے ہیں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان اجتماعی قبروں میں ہزاروں افراد کی باقیات موجود ہیں اور شبہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر شدت پسند سنی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے نشانہ بنائے گئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اجتماعی قبریں جون سے دسمبر 2014ء کے درمیانی عرصے کی ہیں، جب اسلامک اسٹیٹ نے شمالی عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد خود ساختہ خلافت قائم کی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق اجتماعی قبروں میں خواتین، بچوں، بوڑھے اور معذور افراد کو بھی دفن کیا گیا تھا۔ مدفون افراد میں سلامتی کے عراقی اداروں کے ارکان بھی شامل ہیں۔
اس عالمی ادارے کی جانب سے ماضی میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق صرف عراق میں اسلامک اسٹیٹ نے تقریباً تینتیس ہزار عام شہریوں کی جان لی جبکہ پچپن ہزار سے زائد کو زخمی کیا۔
یہ اجتماعی قبریں چار صوبوں انبار، کرکوک، صلاح الدین اور نینوا میں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ صوبے عراق کے شمال اور مغرب میں شام کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کو دسمبر 2017ء میں عراقی فوج نے ایک بڑی فوجی کارروائی کر کے ان علاقوں سے پسپا کیا تھا۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
14 تصاویر1 | 14
امریکی اندازوں کے مطابق کل 202 اجتماعی قبریں ہیں، جن میں چھ سے بارہ ہزار افراد کو دفن کیا گیا۔ تاہم ہلاک کیے جانے والوں کی اصل تعداد کا تعین کرنا تقریباً نا ممکن ہے کیونکہ ابھی تک صرف 28 اجتماعی قبریں دریافت کی جا چکی ہیں، جن میں تقریباً ساڑھے بارہ سو لاشیں ملی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان افراد کو منظم انداز میں وسیع پیمانے پر کی جانے والی پرتشدد کارروائیوں کے دوران ہلاک کیا گیا، ’’اس قتل و غارت کو جنگی اور انسانیت سوز جرائم کے ساتھ ساتھ نسل کشی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
اپنے تین سالہ دور میں اسلامک اسٹیٹ نے مقامی آبادی کو خوف و دہشت کا شکار بنائے رکھا اور مخالفت یا تنقید کرنے، حکومت کے ساتھ روابط رکھنے اور جنسی رویوں کی وجہ سے شہریوں کو کھلے عام نشانہ بنایا۔
ابھی تک کی سب سے چھوٹی قرار دی جانے والی اجتماعی قبر سے آٹھ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ موصل میں ایک بڑی قبر سے چار ہزار افراد کی باقیات ملی تھیں۔