1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کو چھوڑنے والے جنگجو مسلمانوں کے قتل سے بیزار

امتیاز احمد21 ستمبر 2015

عراق اور شام میں سرگرم جہادی تنظیم داعش کو چھوڑنے والے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکومتیں انہیں مزید افراد کو داعش میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

Terrorcamp in Syrien
تصویر: picture-allianceAP Photo

کنگز کالج لندن میں بین الاقوام سطح پر ’بنیاد پرستی اور سیاسی تشدد‘ پر نظر رکھنے والے ادارے (آئی ایس سی آر) کی طرف سے ایک تازہ رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس کے مطابق رواں برس جنوری کے بعد سے اٹھاون افراد داعش کو چھوڑ چکے ہیں اور عوامی سطح پر اس کا اقرار بھی کر چلے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ان میں سے ستّرہ جنگجوؤں نے جون، جولائی اور اگست کے مہینے میں داعش سے علیحدگی اختیار کی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں اس جہادی تنظیم کو چھوڑنے والے نوجوانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن ایسے نوجوان خوف اور ڈر کی وجہ سے منظر عام پر آنے سے گریزاں ہیں۔ آئی ایس سی آر نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ داعش کو چھوڑنے والوں کے لیے راستے آسان بنائے، ان پر مقدمے قائم نہ کیے جائیں تاکہ ایسے افراد منظر عام پر آ سکیں اور دوسرے افراد ان سے عبرت حاصل کریں۔

جن جنگجوؤں نے اپنی کہانیاں سنائی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ہی سنی مسلمانوں کی قتل و غارت سے تنگ آ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسد حکومت کا سامنا کرنے کے بجائے داعش کے ہاتھوں عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’داعش کو چھوڑنے والوں کی آوازیں مضبوط اور پیغام واضح ہے۔ داعش مسلمانوں کی حفاظت کی بجائے انہیں ہلاک کر رہی ہے۔‘‘

داعش کو چھوڑنے والے جرمنی کے ابراہیم بی کا اپنے دو درجن ساتھیوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئےکہنا تھا کہ وہ شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑنے گئے تھے لیکن زمینی حالات دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی، ’’ وہاں اسد کا کسی کو کوئی خیال نہیں۔ مسلمان ہی مسلمان کو مار رہے ہیں۔ سارے جہاد ہی کو الٹا کر رکھ دیا گیا ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے مطابق داعش کے لیڈر اسد مخالف جہادی تنظیموں ’فری سیرئین آرمی، احرار السلام اور القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ان تمام کے خلاف ’مقدس جہاد‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت سارے منحرف عسکریت پسندوں کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں نے سنی گروپوں کے ساتھ لڑائی ’غلط، غیرتعمیری اور مذہبی طور پر ناجائز ہے‘۔ ان افراد کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ویسا جہاد نہیں تھا، جسے سوچ کر وہ شام اور عراق آئے تھے۔‘‘

اس رپورٹ کے مطابق جو جنگجو داعش کو چھوڑ کر واپس آنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان کا تعلق آسٹریلیا اور مغربی یورپ سمیت سترہ مختلف ملکوں سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے درجنوں ساتھی ترکی فرار ہو گئے تھے جبکہ متعدد کو داعش ’جاسوس‘ اور ’غدار‘ قرار دے کر پھانسی دے چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق داعش کو چھوڑنا نہ صرف ’پیچیدہ مرحلہ ہے بلکہ خطرناک‘ بھی ہے۔ بہت سے غیرملکی جہادی اب شام اور عراق سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن وہ پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں