داعش کی رکنیت اختیار کرنے والی جرمن خاتون کے خلاف مقدمہ شروع کرنا جرمن حکام کے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا۔ تاہم اب جرمن حکام نے مضبوط شواہد ملنے کے بعد اس دہشت گرد تنظیم کی خاتون رکن کے خلاف مقدمہ شروع کر دیا ہے۔
اشتہار
ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ جرمنی میں حکام نے کسی خاتون شہری کے خلاف شدت پسند تنظیم داعش کی رکنیت اختیار کرنے کے جرم میں کارروائی شروع کی ہے۔ حکام کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث اس خاتون جرمن شہری کے خلاف مقدمہ شروع کرنے میں مسائل کا سامنا تھا۔
تاہم اب ملکی وکیل استغاثہ نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ داعش کی خواتین ارکان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔ اسی سلسلے میں عراق میں مبینہ طور پر داعش کی 'اخلاقی پولیس‘ کے لیے کام کرنے والی جرمن خاتون کے خلاف بھی مقدمہ شروع کر دیا گیا ہے۔
داعش کی ’اخلاقی پولیس‘ کی رکن
جرمن حکام نے داعش کی رکنیت اختیار کرنے والی اس ستائیس سالہ جرمن خاتون کے بارے میں کئی تفصیلات بھی جاری کی ہیں۔
اس خاتون کی شناخت جینیفر ڈبلیو کے نام سے ظاہر کی گئی ہے۔ یہ خاتون سن 2014 میں مبینہ طور پر سیاحتی ویزا حاصل کر کے شام اور پھر وہاں سے عراق گئی تھی۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عراق میں ستمبر 2014 سے لے کر سن 2016 کے اوائل تک جینیفر داعش کی ’اخلاقی پولیس‘ کی رکن کے طور پر کام کرتی رہی تھی۔
اس عرصے میں یہ جرمن خاتون مبینہ طور پر فلوجہ اور موصل میں عوامی مقامات پر گشت کرتے ہوئے یہ دیکھتی تھی کہ وہاں کی خواتین کا رویہ اور لباس داعش کے جاری کردہ ضوابط کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس کام کے عوض جینیفر کو داعش سے ستر تا ایک سو امریکی ڈالر ماہانہ تنخواہ بھی دی جاتی تھی۔
چھ ماہ قبل جنیفر کو ترک حکام نے اس وقت حراست میں لے لیا تھا جب وہ انقرہ میں قائم جرمن سفارت خانے سے نئی سفری دستاویزات کے حصول کی کوششوں میں تھی۔ بعد ازاں اسے ترکی سے ملک بدر کر کے جرمنی بھیج دیا گیا تھا۔
جرمن حکام نے جنیفر کو جمعہ انتیس جون کے روز وفاقی جرمن ریاست باویریا سے حراست میں لے لیا جب کہ لوئر سیکسنی میں واقع اس خاتون کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی۔
'کافی شواہد‘
وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کے ترجمان نے اس خاتون کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہم نے داعش کی کسی خاتون رکن کے خلاف اتنے شواہد اکھٹے کر لیے ہیں کہ اب اس کے خلاف مقدمہ شروع کیا جا سکتا ہے۔‘‘
شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی رکنیت اختیار کرنے والے جرمن شہریوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ جرمنی واپس لوٹنے پر ان میں سے کئی افراد کے خلاف مقدمے بھی دائر کیے گئے تھے۔ تاہم جرمن حکام کو داعش کی خواتین ارکان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی خواتین عام طور پر داعش کے کسی جنگجو سے شادی کرنے کے بعد شام یا عراق چلی گئی تھیں اور زیادہ تر واقعات میں یہ ثابت کرنا مشکل تھا کہ ایسی خواتین بطور جنگجو داعش میں شامل ہوئی تھیں۔
شام اور عراق کے کئی علاقوں سے داعش کا قبضہ ختم کرایا جا چکا ہے۔ اس کے بعد سے اس تنظیم کے جنگجوؤں نے اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کر رکھی ہے اور اب ان کی توجہ دہشت گردانہ حملوں پر مرکوز ہے۔ جرمن جریدے ’اشپیگل‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ملکی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ شام اور عراق میں داعش اپنے ارکان کو اب یہ تربیت بھی فراہم کر رہی ہے کہ وہ گرفتار ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
ش ح/ا ب ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔